Wednesday, 31 August 2016

آل سعود حرمیں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام

آل سعود حرمیں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام

#Ale_saud_Harmain#
آل سعود عمرہ کرنے والوں اور زاہرین کو سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ جو آگ اس نے لگائی تھی وہ آگ ان کے گھر تک پہنچ چکی ہے۔ اس لئے آل سعود سے حرمین کی سیکورٹی چھین لینی چاہئے۔ او آئی سی کو چاہئے کہ اب حرمین شریفین کی سیکورٹی سنبھال لے نہیں تو اس طرح کے واقعات مزید ہوسکتے ہیں۔ اب آئندہ ایک ماہ کے بعد حج کے گہما گمہی شروع ہوجائے، ان حالات میں کیا آل سعود حاجیوں کو سیکورٹی فراہم کرسکتی ہے؟ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ آل سعود حکومت 2010 سے اسرائیل میں رجسٹرڈ پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کے اہلکار حرمین کی سیکورٹی پر مامور ہے۔ جس طرح اب ایک عام روایت بن چکی ہے اب ہم سیکورٹی کی ذمہ داری کسی پرائیویٹ کمپنی کے دے دیتے ہیں۔اس طرح آل سعود نے اسرائیل کی کمپنی کو سیکورٹی کی ذمہ داری دے دی ہے۔ جس کے دیکھ بھال میں مسلمان حج اور عمرہ کا فریضہ 2010 سے ادا کررہے ہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔

Monday, 29 August 2016

اسلامی آثار کی تباہی اسلام کی تباہی ہے

اسلامی آثار کی تباہی اسلام کی تباہی ہے

#zainab_shrine_blast#
گیارہ  جون  2016کو دمشق میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مقبرے کے پاس دو تباہ کن بم دھماکے کئے گئے۔ جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ تباہ کاری کی چند تصویریں آپ ملاحظہ کریں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ شیعوں کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ میں اس لئے شیعوں کی حمایت کرتا ہوں کہ جو لوگ اس تباہ کاری میں ملوث ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے جتنے بھی آثار ہیں سب کو تباہ کردیں۔ اسلام ایک Myth بن جائے۔ اسلام بھی ہندوازم کی طرح Myth ہوجائے جس کا کوئی تاریخی ثبوت نہ ہو۔ شام میں تقریبا دس ہزار صحابہ وصحابیات کی قبریں ہیں سب کو وہ تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ جانتے ہیں وہ کن مکتب فکر کے حامل لوگ ہیں جو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ جنہوں نے مکہ اور مدینہ میں موجود تمام صحابہ وصحابیات کے آثار کو 1926 میں تباہ کردیا تھا۔ وہ سلفی گروپ ہے۔ اور اس مکتب فکر کے پروردہ آل سعود خاندان ہے۔ جب تک یہ حکمراں ہیں اس طرح کی تباہی ہوتی رہے گی۔ داعش انہی مکتب فکر کے پروردہ ہیں۔ داعش ایک طرح سے شیعوں کے لئے امتحان ہے۔ جن میں شیعہ یقینا اس امتحان کی گھڑی میں کامیاب ہوں گے اور اس کامیابی کے ساتھ وہ بہت ہی طاقت ور بھی ہوجائیں گے جن میں آل سعود اور ان کے حامیوں کے گروندے یقینا بکھر جائیں گے۔ اس لئے کے کسی کا ناجائز خون بہانا اس کے اثرات کو یقینا پڑے گے۔

Sunday, 28 August 2016

سنی دنیا اس قدر بھولی کیوں ہے؟

سنی دنیا اس قدر بھولی کیوں ہے؟

#-israel_turkey_sunni_world#
مجھے سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے سنی دنیا اس قدر بھولی کیوں ہے۔ یہ وہی بات ہے کچھ لوگوں نے آپ کے گھر پر قبضہ کرلیا اس نے آپ کا جینا حرام کردیا، کھانے پینے اور مختلف چیزوں پر پابندی عائد کردی، اب زچ ہوکر اس کی اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ ٹھیک ہے آپ بھی رہ سکتے ہیں لیکں اس طرح کی بندش اتھالی جائے اور کھانے پینے اور دیگر چیزوں کی چھوٹ دی جائے۔ آپ اس بات پر خوش ہوگئے کہ آپ نے فوری طور پر راحت حاصل کرلی۔ ارے شروع سے ہی اس کا قبضہ ہی ناجائز تھا۔ آپ نے اس کے مستقل طور پر رہنے کو تسلیم کرلیا ہے۔ اب کیا ارودگان کے فیصلے کے بعد تنظیم اسلامی کانفرنس اسرائیل کو تسلیم کرنے والی ہے؟ اس عقل سے پیدل فیصلے پر لعنت ہے۔ حماس کا مؤقف شروع سے ہی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کرے گا اور ایران اور حزب اللہ کا مؤقف بھی ابتداء سے ہی یہی ہے کہ وہ اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی ریاست ہے وہ ہے فلسطین اور صرف فلسطین۔ سعودی عرب کے ذریعہ قائم کردہ فلسطین کے مسئلے کا حل جو Two Nation Theory پر مبنی کہ اسرائیل بھی رہے اور فلسطین بھی رہے۔ اس کو بھی حماس مسترد کرتی ہے۔اسرائیل نام کی ریاست ابتداء سے ہی ناجائز ریاست تھی۔ جس کا خاتمہ ہی اس مسئلہ کا حل ہے۔ اسکے لئے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اروگان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرکے عالم اسلام سے اور فلسطینیوں سے غداری کے مرتکب ہوئے ہے۔ جس کی قیمت یقینا ان کو چکانی ہوگی۔

Saturday, 27 August 2016

صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری ہمارے لئے حرف آخر نہیں

  صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری ہمارے لئے حرف آخر نہیں

#bukhari_educations#

علم جانتے ہیں کسے کہتے ہیں۔ علم حضرت آدم علیہ السلام کو جو اسماء سکھائے گئے تھے ان اسماء کے انکشاف کرنا بھی علم کا اصل مقصد ہے۔ وہ محض نام نہیں تھے بلکہ دنیا میں انسانوں کے ذریعہ جتنے مفید علوم رائج  ہیں جو انسانیت کی خدمت کے لئے ہیں وہ تمام اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ ۔ جب اللہ کوئی بات کہتا ہے اور پھر نبی اس کی وضاحت کرتا ہے تو اس کا مطلب فرد واحد پر نہیں ہوتا بلکہ عمومی ہوتا ہے۔ مولویوں  نے صدیوں سے کتمان حق کیا ہے اور وہ مسلسل کئے جارہے ہیں چند ایک کو چھوڑ کر۔امام بخاری کہتے ہیں کہ ہم نے دس لاکھ حدیثوں میں سے چند ہزار حدیثیں اکٹھی کی ہیں۔ باقی کو ہم نے برباد کردیا۔ ارے بھائی آئندہ نسلوں کے لئے بھی باقی حدیثیں چھوڑ دیتے۔ بہت ساری باتیں جو ان کو دوسرے صدی ہجری میں نہ سمجھ میں آئی ہوں۔ شاید اب سمجھ میں لوگ کو آجاتیں۔ یہی تو مسئلہ ہر چیز کو حرف آخر سمجھ لیا جاتا ہے۔ ان سے زیادہ ذہین لوگ قیامت سے پہلے بہت پیدا ہوں گے۔اسی طرح ابوحنیفہ کا بھی مسئلہ ہے وہ بھی آخری آدمی نہیں۔ قرآن مسلسل کہتا غور کرو۔ یہ غور کرنا صرف ابوحنیفہ کے زمانے تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ قیامت تک کے لئے ہے۔ہر زمانے کے لوگ قرآن سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ نئے نئے مسائل کو حل کرتے رہیں گے۔ ابو حنیفہ ایک حد تک ہی ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ ہمیشہ کے لئے نہیں۔ وہ بھی ہمارے طرح ہی ایک بزنس مین شخص تھے۔ ہاں انہوں نے اپنے زمانے کے تعلق سے جو مسائل تھے ان کو عقلی طور سے حل کردیا تھا۔ اب بھی اس دنیا میں بہت سارے لوگ ہیں جو ان سے زیادہ  ذہین ہوسکتے  ہیں اور آئندہ بھی ہوسکتے ہیں۔ جو ان سے بہتر مسائل کی سمجھ رکھ سکتے ہیں۔ انہوں ںے بہت ہی اچھا کام کیا ہے اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ ابوحنیفہ اور امام بخاری لیجنڈری پرسنالٹی ضرور ہیں لیکں حرف آخر نہیں۔ حرف آخر قرآن اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ جو ہمیں مسلسل دعوت فکر دیتا رہتا ہے اور دیتا رہے گا۔

Tuesday, 23 August 2016

اے پاکستان: آل سعود سے ہشیار باش!

اے پاکستان: آل سعود سے ہشیار باش!

#Pakistan_Saudi_Arabia#

از:ظفر اقبال

 سعودی عرب نے اپنی خاندانی حکومت کی بقا کے لئے اور برتری کے لئے جس طرح وہ عالم اسلام کو بے وقوف بنارہا ہے، وہ اظہرمن الشمس ہے۔ سعودی عرب خادم الحرمین الشریفین کی آڑ میں شیعہ۔ سنی کارڈ کھیل رہاہے۔ اس کے لئے وہ عالم اسلام میں اکیس مسلم ممالک کا جو اتحاد بنایا ہے۔ حالانکہ دنیا میں ستاون مسلم ممالک ہیں لیکں وہ صرف اکیس مسلم ممالک کو ہی اپنی فریب میں مبتلا کرسکا ہے باقی مسلم ممالک سعودی عرب کی مکاری سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ صرف اپنی برتری کے لئے اور فخر کے لئے اور اپنی خاندانی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لئے عالم اسلام کو لامتناہی جہنم میں جھونکنے میں لگا ہوا ہے۔ جس طرح آل سعود اپنی قیادت میں یمن جیسے غریب اور نہتے لوگوں پر بے دریغ بم برسارہا ہے یہ انسانیت کے لئے باعث شرم ہے۔ اسی طرح وہ عراق اور شام میں جس طرح خون کی ہولی کھیل رہا ہے اور شام کو خانہ جنگی میں ڈھکیلنے میں آل سعود اور آل ثانی اور آل نہیان اور آل خلیفہ کا ہاتھ سب کے سامنے ہے۔ وہ تو خوش قسمتی تھی کہ لبنان آل سعود کے فریب کا شکار نہ ہوا نہیں تو لبنان بھی 1975 سے 1990کے درمیان چلی خانہ جنگی سے گذررہا ہوتا۔
اس لئے پاکستان کی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ آل سعود کی فریب کاریوں کا شکار نہ ہو۔ آل سعودکے غلط مشوروں کے باعث ہی ہزاروں پاکستانی پہلے ہی ہلاک ہوچکے ہیں اور پورا ملک مسلکی لڑائی میں جھلس رہا ہے۔ پاکستان کی خود تقریبا پانچ ہزار فوجی اس لڑائی میں ماری جاچکی ہے اور تقریبا بیس ہزار فوجی زخمی ہیں۔ یہ سب آل سعود کی قربت کا نتیجہ ہے اور اس کی پشت پناہی کرنے کی سزا ہے۔ شام کی حکومت کی بقامیں ہی فلسطین کی بقا ہے۔ جس دن شام کی حکومت گرگرئی اسرائیل کو اپنی سلطنت کی توسیع کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شام اسرائیل کی راہ میں چٹان کی مانند کھڑا ہے، پاکستان بھی فلسطین کی آزادی کا حامی ہے اسی طرح دونوں کے مفادات یکساں ہیں۔یہ آل سعود شام کی حکومت کو گراکر فلسطینیوں کے پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام کررہے ہیں اور اسرائیل کا منظور نظربننا چاہتے ہیں۔یہی سوڈان کاصدر عمر البشیرجس کے خلاف عالمی کریمنل کورٹ نے گرفتاری کا وارنٹ جاری کرچکا ہے لیکن اسرائیل اور سعودی عرب کی قرب کی وجہ سے اب اس وارنٹ کا ذکر کہیں اخبارات اور ٹی وی میں خبر بھی نہیں بنتی اب وہ بالکل آزاد گھوم رہا ہے۔ آل سعود کی حکومت کی کوشش ہوتی ہے ہر ممالک میں اسکے سربراہوں پر ذرا سااحسان کرکے اس کو اپنا مرہون منت بنالے تاکہ وہ وقتا فوقتااسے اپنے کاز کے لئے استعمال کرتا رہے۔۔ اسی طرح نواز شریف کے خاندان پر سعودی عرب نے جو احسان کیا ہے اس کی سزا پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ نواز شریف نے سعودی عرب کے خلاف ملک میں ہونے والی ہر کوششوں کو ناکام کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف آل سعود کا ایک مہرہ ہے، جو عالم اسلام کے ایک طاقتور ملک کو آل سعود خاندان پر قربان کردینے کے درپے ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال وہی تھے جنہوں نے پاکستان کی تخلیق کا نظریہ پیش کیا تھا اسی اقبال نے تہران کو عالم مشرق کا جنیوا بننے کی پیشین گوئی کی تھی۔ جب اہل پاکستان کو علامہ اقبال پر اتنا بھروسہ ہے اور ان کی اتنی قدر ہے تو علامہ اقبال کی تہران کے تعلق سے پیشین گوئی بھی مکمل ہوکر رہے گی۔ اس لئے پاکستان کو آل سعود کی خدمت سے باز رہنا چاہئے نہیں تو آل سعود کا جو حشر ہوگا وہ پاکستان کا بھی ہوسکتا ہے۔
فون:9958361526

امت مسلمہ عربیہ کی آل سعود، آل نہیان، آل خلیفہ اور آل ثانی سے آزادی

امت مسلمہ عربیہ کی آل سعود، آل نہیان، آل خلیفہ اور آل ثانی سے آزادی

#Ale_saudi_ale_nahiyan_ale_thani_destroy_govt

کاش مشرق وسطی کے ان غاصب حکمرانوں کے پنجہ استبداد سے وہاں کے مسلمانوں کو آزادی مل جائے تاکہ وہاں کی عوام آزادی سے اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی بنائے اور وہ اسرائیل اورامریکی مفادات کے تحفظ کو نذرانداز کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ امت مسلمہ عربیہ آل سعود، آل نہیان، آل خلیفہ اور آل ثانی سے آزادی حاصل کرے۔

حزب اللہ مزاحمت کی علامت

حزب اللہ مزاحمت کی علامت

GCC_Hizbullah# 

حزب اللہ پر جی سی سی کی پابندی اور اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا فلسطین کی مزاحمت کے پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔عرب خاص طور پر جس کی قیادت سعودی عرب کررہا ہے اس کی جانب سے حزب اللہ کے خلاف اقدامات کرنااور فلسطین کے مزاحمت کو کمزور کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب ان ممالک میں شامل ہے جو امریکی اور یوروپین اسلحہ پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ دونوں ممالک اپنے مشترکہ مفادات اور مشترکہ دشمن حزب اللہ کے خلاف نبردآزما ہیں۔ شام کی حکومت کو گرانے کے لئے عرب ممالک ،ترکی اور اسرائیل نے جو کوششیں کیں حزب اللہ نے پوری طرح سے ناکام کردیا۔شام کی حکومت صرف حزب اللہ کی وجہ سے بچی ہوئی ہے نہیں کب کی گرچکی ہوتی۔
حزب اللہ اس وقت دنیا میں فائر پاور کے اعتبار سے پانچویں بڑی طاقت بن چکا ہے۔ تقریبا ایک لاکھ  میزائل اور راکٹ اس کے پاس ہے۔ خود اسرائیل پر اس وقت حزب اللہ کے نام سے وحشت طاری ہے وہ اس لئے کہ شام کی جنگ میں حزب اللہ کی شمولیت نے جنگ کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ شام میں جنگ کی شمولیت سے پہلے حزب اللہ کی اہلیت محض دفاعی جنگ لڑنے کی تھی لیکن شام میں حزب اللہ کی اقدامی جنگ سے اسرائیل پر وحشت طاری ہوگئی ہے ، اس لئے کہ اسرائیل اب محسوس کرتا ہے کہ اگر اس کی جنگ حزب اللہ سے ہوئی تو وہ یکطرفہ حملہ نہیں کرپائے گا بلکہ اس کو حزب اللہ کی جانب سے مزاحمت ہی نہیں بلکہ اسرائیل کو زمین کے ایک بڑے رقبہ سے ہاتھ بھی دھونا پڑسکتا ہے۔
حزب اللہ پر پابندی لگا کر جی سی سی ممالک دراصل اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔سعودی عرب لبنان کی حکومت کو حزب اللہ کے نام پر جس طرح بلیک میل کررہا ہے، وہ لائق مذمت ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے پچھلے سال لبنانی فوج کی جدید کاری کے نام پر تین بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اب اس نے تین بلین ڈالر دینے سے انکا ر کردیا ہے اس کی وجہ سعودی عرب یہ بیان کرتا ہے کہ ایران میں سعودی عرب کے ایمبسی پر جو حملے کئے گئے تھے اس کی لبنان نے مذمت نہیں کی۔ دراصل سعودی عرب لبنانی فوج اور حزب اللہ کو آپس میں لڑوانا چاہتا ہے، تاکہ دونوں لڑ کر کمزور ہوجائیں اور شام پر اپنی پسند کی حکومت تھونپ دیں۔
فون:9958361526

آل سعود کی حکمرانی کا خاتمہ کیوں ضروری ہے؟

آل سعود کی حکمرانی کا خاتمہ کیوں ضروری ہے؟

Ale_saud_Government_finish_nessesary#

ظفراقبال

اس وقت آل سعود خاندان نائجیریا سے ملائشیا تک مسلم دنیا میں جو تباہی اور سازشوں کا جال پھیلا رہا ہے۔جس کے سامنے سی آئی اے کی بدمعاشیاں بھی ہیچ نظر آتی ہیں۔ جس طرح سی آئی اے نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے پوری دنیا میں اپنی سازشی جالیں پھیلائیں اور اپنی پسند کی حکومت کو بنوانا اور مخالف حکومتوں کو گراناان کے بائیں کا کھیل تھیں۔ جہاں وہ حکومتوں کو نہیں بدل سکتے تھے وہاں ان کے اپنے مہرے ہوتے تھے جو حسب ضرورت اور وقت بہ وقت پر کام میں آتے تھے۔
ٹھیک اسی طرح اس وقت آل سعود کئی برسوں سے خاص طور سے مسلم ممالک میں اسی طرح کا کھیل کھیل رہا ہے اور اپنی پسند کی حکومت کو منوارہا ہے اور جو حکمراں اس کی بات نہیں مان رہے ہیں اس کی حکومت کو گرانا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔ وہ فی الحال چیک ڈپلومیسی پر عمل پیرا ہیں۔آل سعود کے پاس ایک انٹرنیشنل تجزیہ کے مطابق فی الحال چودہ سو بلین ڈالر ہے، یہ وہ روپے ہیں جو قومی خزانہ سے الگ ہیں۔یہ حکمراں خاندان جو تقریبا گیارہ ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے جو ملک کے قومی وسائل کو لوٹ لوٹ کر کھارہا ہے، جو اپنی حکومت کے دوام کے لئے جو بھی حربے ہوسکتا ہے سب کو بروئے کار لارہا ہے۔ فی الحال وہ شام اور یمن میں اپنی پسند کی حکومت کو بزور طاقت بنوانا چاہتا ہے۔اس کے لئے جس طرح کی عسکری کارروائی وہ کررہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح سعودی عرب نے مصر کی پہلی مرتبہ جمہوری طریقہ سے منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیادراصل مصر کی جمہوری حکومت کے صدر، محمد مرسی نے سعودی عرب کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا اور مصرخود ایک عظیم ملک ہے اس کی قدریں بھی عظیم اور تہذیب بھی اور عرب ممالک میں علمی اعتبار سے اپنی حیثیت رکھتاہے ، وہ اپنے ملک کی عظمت رفتہ کی بحالی کے خواہاں تھے۔ لیکن سعودی عرب نے اپنی برتری کو چیلنج کرنے والی مصر ی حکومت کا خاتمہ کردیا اوراس کے عوض مصر کی فوجی حکومت کو ڈالروں میں تول دیا۔
اسی طرح نائجریا میں شیخ زکزکی جو نائجیریا کے سب سے بڑے شیعہ عالم ہیں ان کو پیروکار جو شیعہ ہیں ان لوگوں پر حملہ کرواکر سینکڑوں لوگوں کو قتل کروایا اور ان کو قید میں ڈال دیا گیا اسی طرح ملائشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق کے بینک اکاؤنٹ میں تقریبا سات سو ملین ڈالر جو ہندوستانی کرنسی میں تقریبا ساڑھے چار ہزار کروڑ روپے ہوتے ہیں،اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیئے گئے، وہ الگ بات ہے ملائشیا کی سپریم کورٹ کے جج کو بھی غالبا رشوت دیے کر ان کے حق میں فیصلے کروالئے گئے ہوں گے ، جنہیں ملائشیا کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم نجیب رزاق کو پرسوں بری کردیا ہے۔ ایسا اس لئے ہوا ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ ادھر کئی برسوں سے ملائشیا میں شیعہ کا معاشرتی بائیکات اور ان کے خلاف کئی طرح کی کارروائی چل رہی تھیں اسی عوض ان کو ڈالروں میں تول دیا گیا۔
اسی طرح پاکستان میں نواز شریف کی ساری تگ ودو سعودی عرب کی مرہون منت ہے اور وہ اپنی پسند کے حکمراں کو پاکستان میں بٹھانے میں پوری طرح تعاون کررہا ہے کہ تاکہ پاکستان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواسکے ۔ وہ تو غنیمت ہے کہ پاکستان کی عوام اور وہاں کا سول سوسائٹی زیادہ بیدار ہے جس کی وجہ سے آل سعود زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا اور وہ یمن جنگ کا براہ راست حصہ بننے سے گریزاں رہا۔ لیکن حکومت جو نواز شریف کی ہے وہ پہلے دن ہی سے یمن جنگ میں شامل ہونے اور اس کا حصہ بننے کے لئے پرتول رہی تھی او ر نواز شریف کی حکومت کی جانب سے متزاد بیانات آنے لگے تھے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آل سعود کی حکومت کا جلد خاتمہ نہیں کیا گیا تو خاص طور سے سنی دنیا المیہ سے دوچار ہوجائے گی۔ ایک بڑی تباہی اس کی منتظر ہوگی۔ساری دنیا کے مسلم اس بات سے مطمئن رہے ہیں حرمین کو کچھ نقصان پہنچنے والا نہیں ہے، صرف انتظامیہ کی تبدیلی ہوگی۔
فون:9958361526
ای میل:zafarurduuni@gmail.com

سعودی عرب پاکستان میں مسلکی لڑائی کا بانی

سعودی عرب پاکستان میں مسلکی لڑائی کا بانی

saudi_arabia_Pakistan_secterian# 

سعودی عرب نے تاریخ میں مسلم ممالک کے ساتھ چند ایسی سازشیں کی ہیں جن کی قیمت عالم اسلام ابھی تک بھگت رہا ہے۔ سعودی عرب نے عالم اسلام پر حکومت کرنے کا جو خواب دیکھا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ سب سے پہلی مثال میں مصر کا پیش کرتا ہوں جب مصر میں جمال عبدالناصر برسراقتدار تھے تو اس وقت سعودی عرب مصر کے مقابلے میں کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔یہ چیز اس کو بہت بری لگتی تھی۔ اس نے ایک سازش کے تحت مصر کی حکومت کی کمر توڑنے کی پلاننگ کی۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو مصر پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا۔ اسرائیل کو سعود ی عرب نے یقین دہانی کرائی کہ بیت المقدس تمہارا ہے تم صرف مصر کی فوجی طاقت کی کمر توڑ دو۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ مصر کے کمزور ہوتے ہی عالم اسلام کی قیادت خود بخود سعودی عرب کے حصے میں آگئی۔
اسی طرح جب پاکستان نے 28مئی 1999میں ایٹمی دھماکہ کیا تو سعودی عرب کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور سارے عالم اسلام میں پاکستان کی تعریف ہونے لگی ۔ سعودی عرب کو ایسا محسوس ہونے لگا کے پاکستان سنی دنیا کے لئے ایک نمونہ بن گیا ہے اور اس کی اہمیت دو چند ہوگئی۔ اس چیز نے اس کو بے چین کردیا اور اس نے سازش کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوادیا اور خاص طور سے مسلکی تشدد میں بہت اضافہ کروایا گیا۔ آج پاکستان کی ساری دنیا کے سامنے جو حالت وہ سب پر عیاں ہے۔ سعودی عرب اپنے علاوہ کسی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ اپنی سپرمیسی کے لئے وہ پورے عالم اسلام کو خاک میں بھی ملا سکتا ہے۔ جو اس کی سپرمیسی کو چیلنج دے گا اس کا حشر بھی وہ پاکستان اور یمن جیسا ہی کرے گا۔اسی طرح سعودی عرب ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف اسلامی اسٹیٹ کی ہرطرح سے مدد کررہا ہے تاکہ ایران جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اس کے ناک میں دم کردے اور اسے شکست سے دوچار کردے۔ واضح رہے کہ 28مئی 1999سے پہلے پاکستان میں مسلکی تشدد کے تقریبا کوئی واقعات نہیں ملتے ہیں۔ بلکہ شیعوں کا سب سے پہلا قتل عام کوئٹہ میں 2003میں ہزارہ قبائل کے لوگوں کاہوا تھا۔ تب سے مسلسل قتل کا سلسلہ اور مسلکی لڑائی جاری ہے۔ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اب فوج کی کوششوں سے ضرب عضب جاری ہےجس کے کچھ نتیجے برآمد ہورہے ہیں۔
فون:9958361526

فلسطین کی آزادی کا راستہ طہران سے ہوکر گذرتا ہے

فلسطین کی آزادی کا راستہ طہران سے ہوکر گذرتا ہے

#Palestine_tehran_independence

بیت المقدس چودہ سو سالوں کی اسلامی تاریخ میں دو مرتبہ غیر وں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ہے۔ پہلی مرتبہ سن 1099عیسوی میں صلیبیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا تھا۔ بیت المقدس اس وقت یرغمال بنا تھا جب عربوں کی حکمرانی تھی لیکن کرد جنرل سلطان صلاح الدین ایوبی (رح)کے ہاتھوں تقریبا 88سالوں کے بعد 1187عیسوی میں بیت المقدس آزاد ہوا۔ جب ترکوں کے ہاتھوں میں بیت المقدس کا منیجمنٹت آیا توبیت المقدس پوری طرح محفوظ ہوگیا۔ ترکوں نے خلافت عثمانیہ کی صورت میں ہر قیمت پر بیت المقدس کی حفاظت کی۔
پہلی عالمی جنگ جو دراصل خلافت عثمانیہ کو توڑنے کے لئے ہی لڑی گئی تھی جس کا خاص مقصد بیت المقدس کو خلافت عثمانیہ سے چھین کریہودیوں کو دیا جانا تھا۔ عربوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف انگریزوں اور یہودیوں کا بھرپور ساتھ دیا، 1948میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیااس وقت اسرائیل کی بیت المقدس پر حکومت نہیں تھی، بلکہ بیت المقدس اردن کا حصہ تھا۔ لیکن 1967کی جنگ میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا،۔ تاریخ میں پھر یہ بات لکھ دی گئی کہ عرب مسلماوں کے مذہبی مقامات کی حفاظت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ، بلکہ عجمی حکومت ہی اس کی اہلیت رکھتی ہیں کہ وہ مقامات مقدسہ کی حفاظت کرسکیں۔
اب ایران حزب اللہ اور حماس کی بھرپور مدد کررہا ہے، حماس کی عزیز الدین قسام بریگیڈ جو غزہ میں اسرائیل سے برسرپیکار ہے ، حماس نے تین جنگوں میں اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا ہے۔ حماس کی یہ جیت صرف ایران کی مدد کے باعث ہی ممکن ہوسکی۔ حزب اللہ تو خیر ایران کا اعلانیہ حلیف ہے، ۔ حزب اللہ کا استحکام صرف ایران کی مرہون منت ہے۔ ان شا ء اللہ جلد ہی ایران کے ہاتھوں فلسطین کی آزاد کی نوید آپ سنیں گے۔
ترکی کے صدر طیب ارودگان صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ وہ ترکی جو فلسطین سے بظاہر ہمدردی دکھاتا ہیں لیکن اسرائیل سے سفارتی تعلقات کررکھا ہے۔ اگر دم ہے تو ایران کی طرح سفارتی تعلقات اسرائیل سے توڑکر دیکھے۔ واضح رہے کہ ایران عالم اسلام کا واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے شاہ کے زمانہ میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا لیکن امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد 1979 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے، تب سے دونوں میں دشمنی جاری ہے۔
فون:9958361526





خلیجی ممالک کو ایران سے ڈر کیوں لگتا ہے؟

خلیجی ممالک کو ایران سے ڈر کیوں لگتا ہے؟

#Gulf_states_fear_Iran

از: ظفر اقبال

گزشتہ برس جی سی سی (گلف تعاون کونسل)کے چھ ممبرممالک جن میں سعودی عرب، قطر،بحرین،یو اے ای، کویت اور سلطنت عمان کی میٹنگ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ہوئی ۔ ان تمام خلیجی عرب ممالک کو ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممالک پلس جرمنی کے درمیان ہوئے معاہدے پر سخت تشویش ہے۔ ان ممالک کو لگتا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ ہوئے اس معاہدے کو امریکی کانگریس پاس کردیتی ہے تو اس سے ایران اپنے پڑوسی عرب ممالک کے لئے مسائل میں اضافہ کرے گا اور توسیع پسندانہ رویہ اختیار کرے گا۔ لیکن ایران کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود ان عرب ممالک کو اب بھی یقین نہیں ہورہا ہے کہ ایسا ہی ہوگا اوریہ ممالک امریکہ سے گارنٹی مانگ رہے ہیں کہ ایران کی جانب سے مستقبل میں کسی بھی طرح کی جارحیت ہوتی ہے تو امریکہ اس کی ہر حالت میں مدد کرے گا۔ امریکہ بھی اسے بار بار یقین دلاچکا ہے کہ میں ہر حالت میں تمہاری سیکورٹی کی ذمہ داری نبھاؤں گا۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام سنی عرب ممالک امریکہ کے سایہ عاطفت میں رہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔ انہیں شیعہ ایران کے طاقت ور ہوکر ابھرنے سے سخت پریشانی لاحق ہے۔ان عرب ممالک کی پریشان اپنی جگہ صحیح ہے ۔ ان کو پریشان ہونا ہی چاہئے۔ ان عرب ممالک نے جو جرائم کئے ہیں۔ مجرموں کو اس بات کا زیادہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے جرم کی سزا ایک نہ ایک دن ضرور ملے گی چاہے ان کو عوام دے یا کوئی اورطاقت ۔
ان عرب ممالک نے جو جرائم کئے ہیں وہ بھی سنئے، جب ایران میں امام خمینی (رح)کی قیادت میں ایرانی انقلاب برپا ہوا توامریکہ کو تو سب سے زیادہ پریشان ہوئی وہ تو برحق ہے لیکن امریکہ سے بھی زیادہ پریشان ان عرب کے بادشاہوں کو ہوئی ۔ ان عرب ممالک کے بادشاہوں نے سازش کے تحت عراق کو اکسایا اور لالچ دے کر ایران پر حملہ کروادیا جس سے ایران کا انقلاب جہاں سے شروع ہوا ہے وہیں ختم ہوجائے۔یہ جنگ تقریبا آٹھ برسوں تک چلتی رہی ،اس جنگ میں ایرانیوں کو کافی جانی و مالی نقصان کا اٹھانا پڑا۔ بالآخر ۱۹۸۸ میں اقوام متحدہ کی ثالٹ میں ہوئے معاہدے کے بعد یہ جنگ ختم ہوگئی۔جس جنگ میں لاکھوں ایرانی مارے گئے۔ ان عرب ممالک سے شدید تکلیف تو ایران کو ہوگی ، یہ تکلیف ہمیشہ ہی رہے گی۔ دس لاکھ ایرانیوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی ہیں۔ جب عراق نے اپنی ناعاقبت اندیشی کے باعث اس نے کویت پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تو عراق کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے امریکی فوج کی مدد حاصل کی گئی۔ امریکہ شدید بمباری اور تباہی سے دوچار کردینے والے ہتھیاروں سے عراق کو بے دست و پا کردیا ۔ بالآخر ۲۰۰۳ میں عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت چلی گئی۔ عراق میں اکثریتی شیعہ آبادی کے باعث جب شیعہ حکومت برسراقتدار آئی تو ان عرب ممالک کو سخت تشویش ہوئی کہ عراق تو شیعہ ملک ہوگیا، جمہوریت کے زمانے میں ایسا ہونا ہی تھا۔ شیعہ مسلک ہونے کی وجہ سے لامحالہ ان کی قربت ایران سے ہونی ہی تھی۔ اس طرح لبنان، شام اور یمن جہاں شیعہ آبادی اکثریت ہیں ان کی قربت بھی ایران سے ہے۔ بحرین جہاں ستر فیصد شیعہ آبادی ہے لیکن بادشاہ سنی خاندان ہے۔ اس زمانے میں بادشاہت ۔ جب میں سنتا ہوں کہ کسی ملک میں بادشاہ ہے تو مجھے الٹی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
۲۰۱۱ میں جب مصر میں حسنی مبارک کی حکومت ختم ہوگئی اور
جمہوری الیکشن کے ذریعہ جب محمد مرسی برسراقتدار آئے تو خلیج کے ان عرب ممالک کو پھر تشویش ہوئی کہ محمد مرسی تو اسلام کا ہیرو ہوجائے گا۔ تب محمد مرسی کی حکومت ایک سازش کے تحت ختم کی گئی۔ بشار الاسد کی حکومت کو ہٹانے کے لئے شام کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا، جس خانہ جنگی کے باعث پورا ملک کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے لیکن یہ عرب ممالک باغیوں کو مسلسل ٹریننگ اوراسلحہ اوروپیہ فراہم کررہے ہیں جس سے شام کی حکومت کو گرادیں ،۔ لیکن شام کے ساتھ ایران ہے ، حزب اللہ ایران کی جنگ لڑرہا ہے۔ اسی طرح لیبیا کے حکمران کرنل قذافی جو ان خلیجی عرب ممالک سے متنفر ہوکر عرب لیگ سے نکل گئے تھے ان کو بھی ان عرب خلیجی ممالک کے حکمراں نے نہیں بخشا ۔لیبیامیں بغاوت کے ذریعہ تختہ پلٹ دیا گیا۔ قذافی کو عبرت کا نشان بنادیا گیا۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ شام ہمارے لئے سرخ لکیر ہے۔ شام کے دمشق میں حضرت زینب کا روضہ ہے۔ جو حضرت حسین (رضی)کی بہن تھیں۔اس مقبرہ پر بار بار حملہ کیا گیا، حضرت سکینہ کا بھی مقبرہ بھی ہے۔ اس طرح بہت سارے اہل بیت کا مقبرہ ہے۔ سید حسن نصراللہ کاکہنا ہے کہ اس عہد میں جن لوگوں نے اہل بیت کو رسوا کیا ہمارے رہتے ہوئے اب اہل بیت کو کوئی بھی رسوا نہیں کرسکتا اس کے لئے چاہے ہم کو تین تہائی اہل شیعہ کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔
اہل شیعہ کے یہاں لیڈر شپ بہت ہی طاقت ور ہے، ان کے یہاں امام کا تصور ہونے کے باعث ان کے اندر اتحاد و اتفاق بہت ہے۔اس وقت دنیا میں دو ہی امام کی چلتی ہے جس کے ایک اشارے پر پوری قوم جان بھی دے سکتی ہے اور لے بھی سکتی ہے۔ ان میں عراق کے آیت اللہ سیستانی اور ایران کے آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای ولایت فقیہ کے منصب پر فائز ہیں۔ اس لئے ان کا درجہ سب سے اوپر ہے۔ ان کا حکم ماننا دنیا کے تمام شیعوں کے لئے لازمی ہیں۔ اس لئے امریکہ اور مغرب اس بات سے مطمئن ہے کہ اگر کسی معاہدے کی آیت اللہ خامنہ ای نے حمایت کردی تو اس معاہدے کو تمام شیعہ دنیا تسلیم کرلے گی۔ لیکن سنی دنیا میں کوئی ایسی قیادت ہی نہیں ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ ایک لیڈر کے حقیقی دس حامی بھی نہیں ملیں گے۔ کہیں اتحاد بھی نظر آتا تو وہ محض مفاد کا اتحاد ہے۔
خلیج کے یہ عرب ممالک کی دلی خواہش ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اور پورا یورپ مل کر ایران کو تباہ کردے تاکہ ہم مزے سے حکومت کرتے رہیں ۔ لیکن تاریخ پر جو ظالموں کا قرض چڑھ چکا ہے اس کو بھی تو چکتا ہونا ہے۔جب کسی کی عقل تباہ ہوجاتی ہے تو وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ وہ اسلام کے دشمنوں سے ہاتھ بے شرمی کی حد تک ملانے کو تیار ہیں۔ ان عرب ممالک کو صرف اپنی فکر ہے ۔ اسلام بھاڑ میں جائے ان کو کوئی فکر نہیں ہے۔حالانکہ شرعی اعتبار سے کسی بھی مسلم ملک کے خلاف غیر مسلم حکومت سے فوجی مدد حاصل کرنا شرعا حرام ہے۔ یہ عرب ممالک بار بار حرام فعل کے ارتکاب کررہے ہیں اور ان کے حامی ساری دنیا میں ان کے ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔
فون:9958361526

ملت ایران کے عروج کی ابتدا اور مغرب کے زوال کا آغاز

ملت ایران کے عروج کی ابتدا اور مغرب کے زوال کا آغاز

#Iran_climax_west_down_fall

14جولائی 2015کو ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے درمیان ہوئے تاریخی معاہدہ غیر معمولی معاہد ہ ہے۔ اس معاہدہ کی وہی اہمیت ہے جو Treaty of Karlowitzکی ہے۔ یہ معاہدہ خلافت عثمانیہ اور مغرب کے درمیان 1699میں ہوا تھا۔اس معاہدہ کے بعد خلافت عثمانیہ کی فتوحات رک گئی اور اسے سینٹرل یورپ سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے خلافت عثمانیہ سمٹتی چلی گئی ۔ بالآخر 1923میں ختم ہوگئی۔اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مغرب کے تاریخی معاہدہ کے بعد اب مغرب کی پسپائی شروع ہوچکی ہے۔ مغرب اب دھیرے دھیرے سمٹنے لگا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مغرب اس دنیا میں غیر موثر ہوجائے گا۔ اس دنیا کے معاشی سے لے کر سیاسی معاملات کوئی اور ممالک طے کریں گے۔

لیاقت علی خان کی شہادت اور امریکہ کا اعتراف جرم

لیاقت علی خان کی شہادت اور امریکہ کا اعتراف جرم

#Liyaqat_Ali_khan_US_Assasination

از:ظفر اقبال

پاکستان کے پہلے اور سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان کی تاریخ کا ایک غیر معمول واقعہ ہے ۔ جن کی شہادت۱۹۵۱ میں راولپنڈی میں ایک ریلی کرنے کے دوران ہوئی۔ شہادت کی وجوہات کا پتہ لگانے کی بڑی کوششیں کی گئیں لیکن اس کا پتہ دو مہینہ پہلے تک نہیں چل سکا۔ اب امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ڈی کلاسیفائڈ کردی ہے۔ ہم ایشیاوالوں کو یوروپ اور امریکہ کو داد دینی پڑے گی کہ ایک عرصہ گذرنے کے بعد اپنے جرائم کی وہ ہرگز پردہ پوشی نہیں کرتے اور تاریخ کے طالب علم کو گومگو اورتذبذب کی حالت میں بالکل نہیں رکھتے۔ایک عرصہ گذرنے کے بعداپنے جرائم کا سرعام اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کارنامہ انجام دیا اور ۱۹۵۹ میں کیوبا کے صدر فیڈرل کاسٹرو کو زہر دینے کی ناکام کوشش ہم نے کی اور پاکستان کے وزیر اعظم کو ہم نے ہلاک کیا۔ اس طرح بہت ساری تاریخی باتوں کو لاینحل نہیں چھوڑتے۔۱۸۵۷ میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی جس کو ہم غدر کے نام سے موسوم کرتے ہیں ہندوستا ن کے جس جس افراد نے انگریزوں کی مدد کی اور ان کے لئے جاسوسی کی اس کو سو برسوں بعد ۱۹۵۷ میں برطانیہ نے ڈی کلاسی فائیڈ کردیا ، جس کو قومی کونسل برائے فروغ اردو نے ۱۸۵۷ کے غداروں کے خطوط کے نام سے شائع کردیا ہے۔
خیرہم لیاقت علی خان کے طرف لوٹتے ہیں۔لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے انہوں نے بہت اچھی طرح پاکستان کے نظم ونسق کو سنبھالا۔ پاکستان کے اس عہد کے تمام لوگ اس کی زبردست تعریف کرتے ہیں۔ایک مسئلے میں امریکہ اور لیاقت علی خان میں ٹھن گئی ، امریکہ کو ایران سے تیل کے تعلق سے کچھ معاہدہ کرنے تھے لیکن شاہ ایران اس معاہدے کو تسلیم نہیں کررہے تھے۔ لیاقت علی خان شاہ ایران کے دوست تھے ۔ امریکہ نے ان سے رابط قائم کرکے لیاقت علی خان سے چاہاکہ وہ اپنی دوستی والے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ اور ایران کے درمیان تیل سے متعلق معاہدہ کو حتمی شکل دینے کے لئے راضی کرے۔ لیکن لیاقت علی خان نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میں اپنی دوستی کا اس طرح ناجائز فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ اس پر اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے لیاقت علی خان کو فون پر برے نتائج کی دھمکی دی۔ اس دھمکی آمیز فون کے بعد لیاقت علی خان بھی جلال میںآگئے انہوں نے متحدہ پاکستان میں جس جس ائرپورٹ پرسویلین امریکی طیارے موجود تھے سب کو چوبیس گھنٹے میں پاکستانی سرزمین کو چھوڑدینے کا حکم جاری کردیا۔اس طرح دونوں ملکوں کے تعلقات برے عہد میں داخل ہوگئے۔
تب امریکہ نے سی آئی اے کے توسط سے ان کے قتل کرنے کی سازش رچی۔پاکستان میں کسی مہرے کو کافی ڈھونڈا گیا لیکن کوئی ہاتھ نہیں آیا۔ اس وقت افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کے تنازع کی وجہ سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھاوہاں سید اکبرالدین نامی ایک شخص اس کو مل گیا ۔ اس نے راولپنڈی کے ایک عوامی جلسے میں ان کو گولی مارکر شہید کردیا اور سی آئی آے نے ثبوت مٹانے کے لئے سید اکبر الدین جس نے گولی چلائی تھی جائے وقوعہ پر اس کو بھی ہلاک کردیا اس طرح کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ لیکن واہ رہے مغرب تم تو جرم بھی کرتے ہو اور برملا اس کا اعتراف بھی کرتے ہو۔
اسی طرح بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی اور کئی دیگر کے بارے میں ہوسکتا ہے آئندہ پچاس برسوں بعد اس کی اصلیت کا پتہ چلے۔ان کو قتل کرنے والے اصل میں کون لوگ تھے۔

یمنی مسئلے کی اصل حقیقت

یمنی مسئلے کی اصل حقیقت

#Yemen_Saudi_arabia_Original_Problem

یمن کے تعلق سے بیشتر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یمن میں منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں یمن کے خلاف اپنا فوجی اتحاد تشکیل دے کر حوثیوں اور یمنی فوجیوں پر مسلسل مہینوں سے بمباری کررہا ہے۔ یہ صرف احمقانہ باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یمن کی امامیہ حکومت جو شیعوں کی ہزار سال سے مسلسل جاری حکومت تھی۔ جو حکومت 1962 میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبدالعزیز آل سعود نے 1930 میں امامیہ حکومت سے معاہدہ کیا جس معاہدہ کے رو سے نجران، عسیر اور جازان کے صوبے 60 برسوں کے لئے سعود ی عرب کو پٹے یا لیز پر دے دیئے گئے۔ جس ساٹھ سال کی مدت 1990 میں ختم ہوگئی۔ 1990 میں عبداللہ صالح کی حکومت کی تھی اس کو بڑی رقم تقریبا 18 بلین ڈالر نقدی اور سونے کی شکل میں ادا کئے گئے تاکہ وہ ان ختم ہوئے معاہدہ کے بارے میں کوئی سوال نہ کرے۔ لیکن جب پچھلے سال یمن میں حوثیوں کا غلبہ ہوا اور صنعا پر ان کا کنٹرول ہوگیا اور وہ عدن کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تب حوثیوں نے اعلان کیا کہ ہم ان تینوں صوبوں کو دوبارہ حاصل کرکے رہیں گے۔اس اعلان نے سعودی عرب کی حکومت کی حالت غیر کردی۔ سعودی عرب کی ہر حالت میں خواہش ہے کہ یہ تینوں صوبے کسی بھی طرح یمن کو دوبارہ نے ملیں۔ اس لئے وہ چاہتی ہے کہ یمن میں اس کی باج گذار حکومت رہے۔ جن کو وہ پنی انگلی پر نچائیں۔ وہ معاہدہ اسی طرح کا معاہد ہ تھا جس طرح ہانگ کانگ کو 99 سال کے پٹے پر برطانیہ نے چین سے لے لیا تھا اور 1999 میں اس کی مدت ختم ہونےکے بعد چین نے ہانگ کانگ کو دوبارہ لے لیا۔

بے غیرت عرب حکمران

بے غیرت عرب حکمران 

#unpopuler_arab_ruler_Palestine_alquds

عربوں میں پہلا عرب حکمران عبدالملک بن مروان تھا جنہوں نے اپنی حکومت کے استحکام اور اپنے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مقصد سے اپنے گورنر حجاج بن یوسف کو استعمال کرتے ہوئے عبداللہ بن زبیر (رض) کے خلاف لڑائی کی ، جس لڑائی کے دوران ان عرب حکمراں نے مکہ میں کعبہ پر منجنیق سے پتھربازی کرکے بیت اللہ کو مکمل طور سے ڈھادیا۔ اس کا اہم مقصد محض اپنی حکومت کو بچانا تھا۔
دوسرا واقعہ 1099ء کا ہے، اس وقت عباسی خلیفہ کے عہد میں بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ہوگیا،وہ قبضہ تقریبا 90 برسوں تک صلیبیوں کا رہا، تب کرد سلطان صلاح الدین ایوبی (رح) کے ہاتھوں بیت المقدس پھر مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔
ہلاکو کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد خلافت تقریبا ختم ہوگئی تھی، جس نے خلافت کو دوبارہ استحکام بخشا ہے وہ ملک الظاہر سلطان بیبرس تھا جو ایک مملوک حکمراں تھا جس نے عباسی خاندان کے ایک زندہ بچ جانے والے بچے کو خلیفہ بنایا ، پھر بعد میں جب عثمانی ترکوں کو عروج حاصل ہوا۔ تب خلافت عثمانی ترکوں کو مل گئی۔ لیکن انہوں نے کعبۃ اللہ کی جس طرح نگرانی کی اور اس کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیا گیا۔ لیکن 1917 میں ایک سازش کے تحت آل سعود نے یہودیوں کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا اور فلسطین اور بعد میں 1967 میں بیت المقدس پر اسرائیل قبضہ کروایا۔ اس کا اہم مقصد جو انہوں نے عثمانی ترکوں کے پیٹھ میں خنجر گھونپ کر جو سلطنت حاصل کی اس کو استحکام مل جائے اور اسرائیل اور امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہے۔
ان عرب حکمرانوں نے اپنے حکمرانی کے استحکام کے لئے جس طرح اسلامی مقدسات کو پامال کیا اس کی کوئی نذیر ہمیں تاریخٰ میں نہیں ملتی ہے۔ ایک بار پھر آل سعود حرمین کی آڑ میں اپنے سیاہ جرائم کو چھپانے میں لگی ہوئی ہے اور حرمین کی حفاظت کے نام پر یمن میں قتل وغارت گری میں لگی ہوئی ہے، یمن کے غریب عوام پر امریکی، فرانسیسی اور اسرائیل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔اس لئے حرمین کا منیجمنٹ آل سعود سے چھین لینا چاہئے اور سعودی عرب میں الیکشن کرانا چاہئے اور حرمین کا منیجمنٹ او آئی سی سنبھالے،تاکہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نمائندگی صحیح معنوں میں ہوسکے۔ لوگ اپنے اپنے مسلک کے تحت وہاں عبادت کرسکیں۔
اس سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ انہوں نے تاریخ میں کیا کیا جرائم کئے ہیں۔ اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے صاف کہا کہ عربی وعجی میں کوئی فرق نہیں ، اگر کوئی ایک دوسرے پر فضیلت رکھتا ہے تو وہ تقوی کی بنیا پر رکھتا ہے۔ اس لئے عرب کو زیادہ فضیلت دینے کی ضرورت نہیں ہے، سب انسان برابر ہیں۔



بودھوں سے مسلمانوں کو معافی مانگنی چاہئے

بودھوں سے مسلمانوں کو معافی مانگنی چاہئے

#Budh_muslim_appologies

برما میں جو کچھ بھی ہورہا ہے۔اس ظلم کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اس میں خودہماری کو تاہی اور ہماری بداعمالیوں کا بھی دخل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بدھ مت کے پیروکار کبھی بھی جارحیت پر اتارو نہیں ہوئے لیکن ہم نے ان کو اس بات کا موقع فراہم کیا کو وہ امت مسلمہ کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے۔ تو سنئے جب طالبان بامیان میں ڈھائی ہزار سال کی تاریخ کے امین گوتم بدھ کے دو مجسموں کو توپ سے اڑارہے تھے تو پوری امت مسلمہ کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی غماز تھی کہ پوری امت مسلمہ طالبان کے اس فعل میں شامل تھی۔ امت مسلمہ کے صالح لوگوں کو طالبان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے تھی اور طالبان کو اس سے روکنا چاہئے لیکن نہیں روکا گیا۔ بالآخر بامیان میں گوتم بدھ کے دونوں مجسموں کو توپ سے اڑادیا گیا۔ تب یہ بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں سے بدظن ہوگئے اور ان کے دل میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ مسلمانوں کو جب بھی طاقت ملتی ہے وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دیگر اقوام کو ذلیل کرتے ہیں۔ تب سے برما میں مسلمانوں کے قتل عام میں اضافہ ہوگیا۔ بلکہ مجھے اس وقت بھی یہ لگ رہا تھا کہ یہ ری ایکشن جاپان ، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور لنکا میں بہت زیادہ کیوں نہیں ہوا۔ امت مسلمہ نے جو بداعمالیاں کی ہیں اس کی سزا تو ان کو ملے گی۔ طالبان کو نہ صحیح کسی اور ملک کے مسلم عوام کو۔ ہمیں اس پہلو پر سوچنا چاہئے اور بدھ مت کے پیروکاروں سے معافی مانگنی چاہئے تب ہی ہم اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں نہیں تو یہ تصادم عرصے تک جارہی رہ سکتاہے۔ جو کریں گے وہ ہم اسی دنیا میں بھگتیں گے۔

جی سی سی کا کافر ملک امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک معاہدہ شرعا حرام ہے

جی سی سی کا کافر ملک امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک معاہدہ شرعا حرام ہے

#GCC_USA_Stretagic_agreement_Islam_prohibited

 سال 2015 میں امریکہ کے کیمپ ڈیوڈ میں گلف تعاون کونسل (جی سی سی) اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ بات چیت ہوئی جس میں یمن، شام ،ایران اور مغرب کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدہ کی صورت میں مشرق وسطی پر پڑنے والے اثرات خصوصی موضوعات رہے، دو دنوں تک چلے مذاکرات انہیں موضوعات کے ارد گرد گھومتے رہے۔ ان دو دنوں میں امریکہ نے ان خلیج کے حکمرانوں کو پوری طرح سے یقین دہانی کرائی کہ جس طرح اسرائیل کی سیکورٹی ہمارے لئے اہم ہے اسی طرح آپ کی سیکورٹی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ اگر آپ کے خلاف کسی طرح کی کوئی فوجی مہم جوئی ہوتی ہے تو ہم پوری طرح سے آپ کا دفاع کریں گے۔آپ کو یمن کے خلاف جنگ میں ہرطرح کے اسلحے اور فوجی معاونت فراہم کریں گے اور ہدف کا تعین کرنے میں بھی آپ کی مدد کریں گے۔
اس اسٹریٹیجک تعاون کے تعلق سے ایک تاریخی مثال کے ذریعہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں۔ جب حضرت علی(رض) اور حضرت معاویہ (رض)کے درمیان خلافت کے تعلق سے جنگ ہونے لگیں تو اس دوران قیصر روم نے حضرت معاویہ (رض)کے پاس اپنا سفیر بھیجا اور یہ پیشکش کی کہ میں آپ کی حضرت علی (رض)کے خلاف ہونے والی جنگ میں فوجی مدد کرسکتا ہوں لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہلابھیجا کہ اگر تم نے حضرت علی (رض)کے خلاف حملہ کرنے کوشش کی تو ہم دونوں کے درمیان دشمنی کے باوجود ،میں حضرت علی (رض)کی جانب سے تم سے جنگ لڑوں گا۔یہ ہوتی ہے حمیت اور امت مسلمہ کے تعلق سے باہمی اخوت۔ دشمنی کے باوجود بھی جب بات مسلمان کی آتی ہے تو وہ کسی بھی صورت میں باطل کا ساتھ اور حمایت لینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ان عربوں کے عقلوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ ان عرب حکمرانوں کی تقدیر بھی بہت جلد اسرائیل کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ان شاء اللہ

ميرى ماں مسلم امہ ہے:علامہ اقبال

ميرى ماں مسلم امہ ہے:علامہ اقبال

#Iqbal_My_mother_Muslim_ummah

علامہ اقبال کى اردوشاعرى باضا بطہ ديوان کى شکل ميں 1927ء ميں “بانگ درا ”کے نام سے پہلى مرتبہ منظر عام پر آئى۔ اس سے پہلے ان کى مختلف اردو نظميں مختلف رسائل و جرائد ميں شائع ہوتے رہے۔ انہى رسائل و جرائداور اخبارات کے ذريعہ ان کى شاعرى کى دھوم ہندوستان ميں ہر جگہ پھيل گئى تھى۔
جب علامہ اقبال کى اردو شاعرى پر مشتمل پہلا ديوان شائع ہوا توپنجاب يونيورسٹى ، لاہور سے ہندوطالب علموں پر مشتمل ايک گروپ علامہ سے ملنے کے لئے ان کے گھر آيا۔ ان طالب علمو ںنے علامہ اقبال سے کہا کہ آپ ہميں بھول گئے ہيں، ہميں آپ کى ترانہ ہندى، نيا شوالہ جيسى نظميں ياد آتى ہيں، تو علامہ اقبال نے ان طالب علموں کو جواب ديا کہ ميں ايک مثال کے ذريعہ تمہيں سمجھاتاہوں، “مان لوکہ ميرى ماں سخت بيمار ہے اور وہ نزع کى حالت ميں ہے اور تمہارى ماں بھى سخت بيمار ہے،ميں تم سے سوال کرتا ہوں کہ ميں اپنى ماں کى تيمادارى کروں يا تمہارى ماں کى تيمادارى کروں۔” ان تمام طالب علموں نے بيک وقت جواب ديا کہ آپ يقيناً اپنى ماں کى تيمادارى کريں گے۔ تب علامہ اقبال نے ان طالب علموں کو جواب ديا کہ ميرى ماں “امت مسلمہ”ہے، وہ نزع کى حالت ميں ہےاسے ميرى سخت ضرورت ہے۔ اس لئے ميں نے اپنى شاعرى کا رخ مسلم امہ کى طرف موڑ دياہے۔اس جواب کے سننے کے بعد ہندو طالب علموں پر مشتمل گروپ علامہ اقبال سے مايوس ہوکر لوٹ گيا۔

آل سعود حکومت کے خاتمہ کے ہیں طلبگار

 آل سعود حکومت  کے خاتمہ کے ہیں طلبگار

#Saudi_Arabia_Government_elimanated

حرمین کے ہم ہیں پاسبان، لیکن آل سعود کی حکمرانی کے خاتمے کا بھی ہیں خواستگار اورسلطانی جمہور کے ہیں ہم طلب گار
اگر مسلمانوں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہم ا س بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حرمین کا منیجمنٹ ہر زمانہ میں بدلتا رہا ہے کبھی حرمین کے منیجمنٹ کی ذمہ داری بنو امیہ کی پاس تھی اس کے بعد عباسی خلفا کے پاس چلی گئی، اس کے بعد ترک عثمانی خلفا کے پاس رہی ، پہلی جنگ عظیم کے بعد حرمین کی ذمہ داری آل سعود نے لے لی ، اب ایسا محسوس ہوتا ہے حرمین کی ذمہ داری آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی)کو سنبھال لینی چاہئے تاکہ حرمین پر ایک مسلک اور فرقے کا جو غلبہ ہوگیا ہے اس کا سدباب ہوسکے۔ مسلمانوں کے سب فرقے آپس میں مل جل عبادت کرسکیں۔
آل سعود ایک حکمراں خاندان ہے اس کے رہنے یا رہنےسے امت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ سعودی عرب جو ایک خاندان آل سعود کی جاگیر ہوگئی ہے اس خاندان کے تقریبا دس ہزار شہزادے اور شہزادیاں ملک کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک ان کے عیش کے لئے بنایا گیا ہے اور یہ ملک ان کی جاگیر ہے۔ ملک کا نام بھی اپنے خاندان کے نام پر رکھا گیا ہے، ان کو لگتا ہے کہ قیامت تک ہماری ہی حکومت رہے گی اور کوئی ہمارے خاندان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا ہے۔
ساری دنیا اور سارے مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان حرمین پر آنچ نہیں آنے دیں گے لیکن آل سعود کو بچانے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے ، جو صرف ایک ظالم بادشاہ ہے اس عہد میں، سلطانی جمہور کے زمانے میں جب میں بادشاہوں کے نام سنتا ہوں تو مجھے قئے آنے لگتی ہے۔ بادشاہت کا ہر حال میں خاتمہ ہونا چاہئے۔ یہ اس دھرتی پر لعنت ہے۔



طالبان کا وجود :ایک ناسور

طالبان کا وجود :ایک ناسور

#Taliban_islam_cancer

از:ظفر اقبال

جب روس نے 1979ء میں افغانستان پر حملہ کرکے قبضہ کیا تھا اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق تھے۔ انہوں نے اس سنگین صورت حال کو پوری طرح محسوس کرتے ہوئے اس جنگ میں کودنے کا ارادہ کیا ، اس وقت پاکستان کیا امریکہ بھی روس کے ساتھ براہ راست جنگ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔پاکستان کا افغانستان کی جنگ میں الجھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن جنرل ضیاء الحق کو اس بات کا احساس ہوگیاکہ روس کی خواہش دراصل پاکستان کے راستہ بحیرہ عرب تک پہنچنے کی ہے اور بحیرہ عرب تک پہنچنے کے بعد خلیج کے دیگر ممالک کو بھی وہ اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ابتداء سے ہی اس جنگ کا بالواسطہ حصہ بنے رہے۔ تب یہ چیز یں ان ممالک کی مجبوری ہوگئیں کہ اگر روس کو افغانستان میں شکست نہ دی گئی تو پاکستان اور خلیج کے دیگر ممالک روس کی جارحیت سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ یہ صورت حال پاکستان اور خلیج کے دیگر ریاستوں کی مجبوری بن گئی۔روس کی تاریخ ماضی میں جارحیت کی رہی ہے۔ وسط ایشیا کے مسلم ممالک کا سوویت روس میں مکمل انضمام اس کا واضح ثبوت ہے۔1990 میں روس کے انتشار کے بعد بہت سارے ممالک کے ساتھ وہ مسلم ممالک بھی آزاد ہوگئے ہیں۔
افغانوں نے وہی پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کیا جو وہ ماضی میں برطانیہ کے خلاف استعمال کرچکے تھے، وہ نسخہ گوریلا طرز جنگ تھا۔امریکہ بھی اس جنگ میں کود گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اپنے ایک عالمی حریف سوویت روس کو ہر حال میں شکست سے دوچارکرنے کا خواہش مند تھا۔اس کے لئے یہ ایک اچھا موقع ثابت ہوا۔امریکہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے راستے بے پناہ اسلحہ اور اپنے خزانے افغانوں کے لئے کھول دےئے۔
طالبان دراصل افغانستان اور پاکستان کے مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو ابتدامیں سوویت روس سے برسرپیکار تھے۔طالبان کے علاوہ بھی بہت ساری تنظیمیں جیسے گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، برہان الدین ربانی کی تنظیم اور اسی طرح احمد شاہ مسعود کی تنظیم اورچھوٹی بڑی درجنوں تنظیمیں انفرادی طور پر ابتداء سے ہی روس سے برسرپیکار رہیں، پاکستان امریکہ کی مدد سے ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کو عسکری ٹریننگ دیتا رہا۔
جب روس کو افغانستان میں پاکستان اور امریکہ کی مدد سے شکست ہوگئی تو امریکہ افغانستان کوبے یارومددگار چھوڑ کر چلاگیا۔روسی حکومت کے خاتمے کے بعدتمام تنظمیں حکومت سازی کے لئے برسرپیکار ہوگئیں اور وہ آپس میں لڑنے لگیں، خیر کافی لڑائیوں کے بعد جب ان تنظیموں کاآپس میں معاہدہ ہوگیا جس کے بعد حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار افغانستان کے وزیراعظم بن گئے اور پروفیسر برہان الدین ربانی صدر بنائے گئے۔ اسکے بعد بھی وہ آپس میں برسرپیکار ہی رہے۔ ان تنظیموں کی خانہ جنگی نے پاکستان کو نالاں کردیا، اس طرح پاکستان کی مدد سے طالبان کی 1995میں حکومت قائم ہوگئی۔ طالبان کی یہ حکومت 2001ء تک رہی جس کو امریکہ نے حملے کرکے خاتمہ کردیا۔طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والوں میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے۔
1979میں روسی حملے کے بعد ساری دنیا کے مجاہدین افغانستان میں جہاد کے لئے آتے رہے ، ان لوگوں میں اسامہ بن لادن بھی تھا۔ ابتدا سے ہی طالبان کے تعلقات اسامہ بن لادن سے تھے۔ اسامہ نے اپنی دولت کے بل پر ان افغانوں جو اپنے محسنوں کی روایتی مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں ان کو اپنا ہمنوا بنالیا جب طالبان کی 1995میں حکومت قائم ہوگئی تو اس نے ایک انتہا پسند حکومت قائم کی جس کا تعلق شریعت سے بالکل نہیں تھا، اسلام جوعدل و رواداری کا مذہب ہے۔اس کی جگہ انتہا پسندی نے لے لی۔ اس نے بین الاقوامی تعلقات اور مذہبی رواداری کی جو دھجیاں اڑائیں اس سے ساری دنیا کے انسانیت نواز لوگوں کو پریشان کردیا جس کی بدترین گناہوں کا کفارہ آج مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان ادا کررہے ہیں۔
میں ایک مثال کے ذریعے طالبان کے ایک بدترین گناہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے اس امت مسلمہ کو تکلیفوں میں مبتلا کردیا ہے جس سے امت مسلمہ کراہ رہی ہے وہ اس لئے کے طالبان کے اس بدترین گناہ کو ساری دنیا کے دیگر مذاہب کے لوگ اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، کیوں نہ دیکھیں ؟ ان کو دیکھنے کا اس کا پورا حق ہے ۔وہ اس لئے کے امت مسلمہ کی عالمی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس اور دیگر ممالک میں بسنے والے مسلم علماء کی مجرمانہ خاموشی نے اس چیز کو محسوس کرایا ہے۔ وہ انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ طالبان کے مجلس شوری اور نام ونہاد امیرالمومنین ملا عمر کے حکم سے بامیان میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کی امین گوتم بدھ کے دو مجسموں جوپہاڑ کو کاٹ کر بنائے گئے تھے کہ توپ کے ذریعے اڑادیا گیا۔ ساری دنیا کے مسلمان اس بدترین واقعہ کو دیکھتے رہے اوراس کی کھل کر مذمت بھی نہ کی۔ اس چیز نے بدھ مذہب کے پیروکاروں کو اس بات کے لئے مجبور کیا کہ مسلمان بنیادی طور پر انتہا پسند ہیں ان کو جب بھی طاقت ملتی ہے تو دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرتے ہیں اور ذلیل کرتے ہیں۔ ان میں قوت برداشت کی کمی ہے۔طالبان کی انہیں کرتوتوں کی قیمت یہ امت مسلمہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کی صورت میں دیکھ رہی ہے اسی طرح سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف سری لنکائی بودھوں کے حملے ہورہے ہیں۔ بلکہ چند مہینے پہلے سری لنکا میں حلال کھانے کے خلاف ان بودھوں نے مظاہرہ بھی کیا تھا اور سری لنکائی مسلمان کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ ان تمام واقعات کا تعلق طالبان کے ان بدترین گناہوں سے ہے۔ اس لئے امت مسلمہ کے حکمرانوں اور علماء کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بدھ مذہب کے پیروکاروں سے طالبان کے ان کرتووں کی معافی مانگیں اور طالبان پر مقدمہ چلا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
چھ سات مہینے پہلے کی بات ہے سعودی عرب میں ایک سری لنکائی گھریلو ملازمہ جب وہ چار مہینے کے سعودی بچہ کو غسل دے رہی تھی تو بچہ اس کے ہاتھ سے پھسل گیا جس سے اس کی موت ہوگئی، اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی، حالانکہ حادثاتی موت پر سزائے موت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ سعودی بچہ تھا اس لئے سزائے موت سنائی گئی، یہ مسئلہ جب سری لنکائی صدر مہندر راج پکشے تک پہنچاتو انہو ں نے سعودی حکومت سے درخواست کی کہ اس کی سزاکو عمر قید میں تبدیل کردے لیکن سعودی عرب نے اپنے تکبر میں فاتح جافنا کی درخواست کو مسترد کردیا اور اس سولہ سالہ ملازمہ کا سرقلم کردیا گیا ، اتفاق کی بات ہے کہ اس ملازمہ کا تعلق مذہب اسلام سے تھا، اس کے بعد سری لنکائی پارلیمنٹ نے ملازمہ کے سرقلم کردےئے جانے کے بعد قراردادمذمت پاس کی۔ سعودی عرب کے حکمراں جو تکبر و نخوت میں مبتلا ہیں اپنے علاوہ سارے ایشیائی کو بدتر سمجھتے ہیں ۔ امت مسلمہ جس کے اندر عفو و درگذر کا مادہ زیادہ ہونا چاہئے اس نے اپنے فیصلے سے ثابت کردیا کہ جس کا تعلق انسانیت سے دور کا بھی نہیں ہے، جو اپنے ہم مذہب کے ساتھ بھی نرمی نہیں برت سکتا وہ دوسروں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہوگا۔اس نے ایک بودھ ملک اور اس کے سربراہ کو اسلام سے زیادہ متنفر کردیا اس لئے سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف زیادہ تفریق کا مظاہرہ ہورہا ہے کہ ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانو ں کے اندر انسانیت اور درگذر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔
حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ امن بات چیت کررہی ہے اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک جعلی اسلام کے حامی ہیں جس کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ ہر حال میں اپنے نظریے کو اسلام کی آڑ میں تھوپنا چاہتے ہیں۔ ان تمام عناصر کا جب تک مکمل صفایا نہیں ہوگا اس امت مسلمہ کا بھلا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف جو طالبان کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں وہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے سخت خلاف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح طالبان سے معاہدہ امن ہوجائے لیکن طالبان پاکستان کی آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور جمہوریت پر ان کا یقین ہی نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے طالبان نے مغوی ایف سی کے 23 اہلکاروں کا سر قلم کردیا ہے۔ جس سے یہ بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی ہے۔لیکن حالیہ دنوں پاکستانی فضائیہ طالبان کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کررہی ہے۔
جب تک پاکستان کے عوام اور حکومت کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ طالبان کا وجود مسلمانوں بلکہ ساری انسانیت کے لئے ایک لعنت ہے تب تک بہت دیر ہوجائے گی پاکستان میں اب تک ان دس سالوں میں طالبان کے ہاتھوں ساڑھے چار ہزار پاکستانی فوجی ہلاک اور بارہ ہزار فوجی زخمی ہوچکے ہیں اور پچاس ہزار پاکستانی عوام ان کے خودکش حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی حکومت اور عوام صدق دلی کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچ کر طالبان کے وجودکا ایل ٹی ٹی ای کی طرح خاتمہ کردینا چاہئے، تب ہی اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بہتر ہوسکے گی نہیں تو ان کے کرتوتوں کے خمیازے کو اس امت مسلمہ کو صدیوں تک بھگتنا پڑے گا۔
فون:9958361526





صوفيائے کرام دانشمندى کے اعلى مقام پر فائز تھے

صوفيائے کرام دانشمندى کے اعلى مقام پر فائز تھے

sufis_intelectual# 

ايک مشہور حديث اتقوا فراسۃالمؤمن فھوينظربنوراللہ۔ترجمہ:“تم مومن کى فراست سے بچو ، پس وہ اللہ کے نور سے ديکھتا ہے۔” يعنى مومن کى سوچ اور فراست و دانشمندى غير معمولى ہوتى ہے۔ اللہ نور ہے۔ حديث کہتى ہے کہ جس مومن کے اندر فراست پيدا ہوجاتى ہے اور اس کے اندر حکمت و دانشمندى کى صلاحيت پيدا ہوجاتى ہے تو وہ مومن اللہ کے نور سے ديکھنے لگتا ہے يعنى جو سوچ جو دانشمندى اور فيصلے کرنے کى صلاحيت اللہ کے اندر ہے وہ اس مومن کے اندر پيدا ہوجاتى ہے۔ اس مومن کى خواہش اللہ کى خواہش ہوجاتى ہے اور اللہ کى خواہش مومن کى خواہش ہوجاتى ہے۔ يعنى دونوں اللہ اور بندہ کى سوچ اور خواہش اور فيصلے لينے کى صلاحیت آپس ميں Merge (ضم) ہوجاتے ہيں۔اس لئے بعض صوفياء کا يہ دعوى کہ ميں جو چاہے کرسکتا ہوں وہ دراصل اسى حکمت کا نتيجہ تھا ليکن ابن تيميہ کى فکر سے متاثر علماء کو يہ باتيں کہاں سمجھ ميں آسکتى تھيں،اسى لئے منصور حلاج کو انہى مفتيوں کے فتوؤں کے باعث موت سے ہمکنار ہونا پڑا۔
مومن احمق نہيں ہوتا ہے جو چاہے اس کو بے وقوف بنادے۔ اگر وہ بے وقوف بن جاتا ہے اور بارہا بے وقوف بنايا جاتا ہے اور وہ بنتا رہتا ہے تو وہ مومن تو دور کى بات ان کامسلمان ہونا بھى شک کے زمرے ميں آجاتا ہے ۔ کسى قوم کا بارہا اجتماعى بے وقوفياں کرنا اجتماعى ہلاکت پر منتج ہوتا ہے

ایران نے سنی دنیا سے قربت بنانے کی بہت کوشش کی

 ایران نے سنی دنیا سے قربت بنانے کی بہت کوشش کی

#iran_sunni_world

يہ بات کہى جاتى ہے کہ ايران نے سنى دنيا سے قربت بنانے کى کوئى کوشش نہيں کى بلکہ اگر کوشش بھى کى تو محض جزوى ہى کوشش کى ۔ ميں ايک مثال کے ذريعہ اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جب ايران ميں اسلامى انقلاب آيا توبانى انقلاب حضرت آيت اللہ روح اللہ خمينى الموسوى نے جامع مسجد کے شاہى امام مولانا سيدعبداللہ بخارى کو ايران آنے کى دعوت دى، جب شاہى امام سيد عبداللہ بخارى ايران پہنچے تو ان کا استقبال ايک سربراہ مملکت کى طرح ريڈ کارپيٹ پر مکمل گارڈ آف آنر کے ساتھ کيا ، اس طرح ان کاايران ميں دو مرتبہ استقبال کيا گيا ۔ ايران نےسنى دنيا سے تعلق رکھنے والے عظيم شخصيت سيد عبداللہ بخارى کو جو اعزاز بخشا، وہ ان کى سنى دنيا سے قربت کى واضح دليل ہے ليکن بعد ميں سيد عبداللہ بخارى کے بيٹے مولانا احمد بخارى جب جامع مسجد کے شاہى امام بنے تو وہ سعودى سلفى وہابى کے قريب چلے گئے اور ايران اور شيعہ کے خلاف سازشيں کى اور جامع مسجد ميں حکومت ايران کى طرف سے تحفہ ميں ديئے گئے پانى کے واٹر کولر کو پھينکوا ديا اور اپنے والد کى جانب سے شيعہ و سنى کے اتحاد کى کوششوں کوزبردست نقصان پہنچايا جو نہايت ہى افسوس کى بات ہے۔

حجاز میں آل سعود کی حکومت کا خاتمہ کردینا چاہئے

 حجاز میں آل سعود کی حکومت کا خاتمہ کردینا چاہئے

#Hijaz_Ale_saudi

حجاز ميں سعودى عرب کى حکومت کا خاتمہ کردينا چاہئے تب ہى آپ اس خطرے سےنپٹ سکتے ہيں۔حجاز کا منيجمنٹ آرگنائزيشن آف اسلامک کانفرنس کے حوالے کردينا چاہئے تاکہ اسلام کے ماننے والے ہر مسلک کے لوگ اپنے اپنے طريقے سے فريضہ حج ادا کرسکيں تبھى امت ميں اتحاد و اتفاق پيدا ہوسکتا ہے۔ زبردستى ايک مسلک تھوپنا اسلامى روادارى کے سخت خلاف ہے۔ رہا رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کى قبر کو دوسرى جگہ منتقل کرنا ۔ ان سعوديوں سے کچھ بھى بعيد نہيں۔ وہ کبھى بھى اس طرح کا بدفعل انجام دے سکتے ہيں، ان کے اس تباہ کن فعل سے جو تباہى مچے گى جس کا آپ تصور نہيں کرسکتے۔

مولانا سید ابوالاعلی مودودی (رح)نے ایران کے اسلامی انقلاب کا سب سے پہلے استقبال کیا تھا

 مولانا سید ابوالاعلی مودودی (رح)نے ایران کے اسلامی انقلاب کا سب سے پہلے استقبال کیا تھا

#maulana_moududi_iran_revolution

ايران کے اسلامى انقلاب کا دنيا ميں سب سے پہلے استقبال کرنے والےمولانا سيدابوالاعلى مودودى (رح) تھے۔ جس زمانے ميں مولانا مودودى باحیات تھے اس عہد ميں مولانا سے بڑھ کر دنيا ميں کوئى عالم نہيں تھا، اس لئے مولانا مودودى کى رائے حتمى ہے ۔جماعت اسلامى ہند اور پاکستان کے کئى وفد بھى امام خمينى (رح)کےديدار کے لئے قم گئے تھے، اس کے بعد ہميں کسى سے سرٹي فيکيٹ لينے کى ضرورت نہيں ہے کہ وہ اسلامى انقلاب ہے يا نہيں۔
مولانا موددوى(رح) اور امام خمينى (رح) کى سب سے پہلى ملاقات غالباً 1964 ميں حج کے دوران مکہ ميں ہوئى تھى۔ اسى ملاقات سے مولانا مودودى اور امام خمينى ميں کافى نزديکياں ہوئيں۔ اکثر خط و کتابت اور ديگر ذرائع سے ان سے بہت سے مسائل ميں تبادلہ خیال بھى ہوتا رہا۔ جب مولانا مودودى (رح)نے امام خمينى (رح)کے اسلامى انقلاب کا استقبال کيا تو سعودى عرب نے اور دوسرے سلفى علماء نے بڑى کوشش کى کہ کسى طرح مولانا مودودى کو اپنے دام ميں پھنسايا جائے۔ اسى مقصد کے تحت سب سے پہلا فيصل ايوارڈ مولانا مودودى (رح) کو ديا گيا، حالانکہ مولانا مودودى کو 1979ء ميں سخت بيمارى کى وجہ سے پيسوں کى اشد ضرورت تھى ليکن اس ايوارڈ سے ملنے والى خطیر رقوم کو اپنے علاج پر خرچ کرنا بھى گوارا نہيں کيا، يہ ايک طرح سے سعودى عرب کى جانب سے مولانا مودودى (رح)کو رشوت تھى۔ ليکن مولانا مودودى تو مولانا مودودى تھے انہو ںنے شاہ کے مطالبات کو پورى طرح سے ٹھکراديا اور اپنى موت تک اسلامى انقلاب کى حمايت کرتے رہے۔

آپ کو يقين آئے يا نہ آئے ليکن يہ حقیقت ہے

آپ کو يقين آئے يا نہ آئے ليکن يہ حقیقت ہے

#Wahiduddin_khan_destroy_israel#

اسرائيل کى عالم اسلام کے ہاتھوں مستقبل قريب ميں اجتماعى ہلاکت کى پيشين گوئى مولانا وحيدالدين خان کى زبانى۔ مولانا وحیدالدين خان اپنى تفسير تذکير القرآن، صفحہ 419۔418، پہلى طباعت:1985، رى پرنٹ 2011 ميں سورہ الاعراف کى 167 آيت
واذ تاذن ربک ليبعثن عليھم ال يوم ۔۔۔
ترجمہ:اور جب تمہارے رب نے اعلان کرديا کہ وہ يہود پر قيامت کے دن تک ضرور ايسے لوگ بھيجتا رہے گا جو ان کو نہايت برا عذاب دے۔ بےشک تير ا رب جلد سزا دينے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آيت کى تفسير ملاحظہ فرمائيں: “اس آيت ميں يہود کے لئے دو سزاؤں کا ذکر ہے، ايک يہ کہ ان پر ايسى قوميں مسلط کى جائيں گى جو ان کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائيں۔ تاريخ بتاتى ہے کہ يہود کبھى بخت نصر اور کبھى ٹائٹس رومى کے شدائد کا نشانہ بنے، کبھى وہ مسلمانوں کى ماتحتى ميں ديئے گئے۔ موجودہ زمانہ ميں انہو ںنے مشرقى يورپ ميں اپنا زبردست اقتصادى جال پھيلا ليا تو ہٹلر نے انہيں تباہ وبرباد کرڈالا۔ اب ارض مقدس ميں ان کا اجتماع اس کى علامت ہے کہ ان کى پورى قوت شايد اجتماعى طور پر ہلاک کى جانى والى ہے۔”





ارودگان کا موازنہ جمال عبدالناصر سے کرنا عجلت پسندی

ارودگان کا موازنہ جمال عبدالناصر سے کرنا عجلت پسندی

#Erodgan_gamal_nasir

ہندوستانی اردو میڈیا میں کچھ لوگ عجلت میں ارودگان کا موازنہ جمال عبدالناصر سے کررہے ہیں۔ لیکں میری آج بھی یہی رائے ہے کہ تھوڑا اور انتظار کریں۔ عجلت میں اروگان کا موازنہ جمال عبدالناصر سے نہ کریں۔ مجھے لگتا ہے کہ جس طرح 1979 کے انقلاب کے بعد ایران میں تطہیر کا عمل ہوا تھا اسی طرح کی تطہیر کا عمل ارودگان کرنا چاہتے ہوں۔ ظاہر سی بات ہے اس سے ہر شعبہ متاثر ہوگا۔ روس اور ایران جس کو وہ دشمن سمجھتے تھے انہوں نے ہی ان کی بروقت مدد کی۔ اگر وہ مدد نہیں کرتے ان کا حشر بھی محمد مرسی سے مختلف نہ ہوتا۔ ایران اور روس کے لئے ترکی ایک اہم ملک ہے۔ ایک تو اس کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اور معیشت کے اعتبار سے ایک مستحکم ملک ہے۔ اروگان کو سزا اس بات کی دی گئی کہ انہوں نے غزہ کی عوام کے لئے کھانا پہنچایا، جہاں کی عوام بھوکی مررہی تھی۔ اس کو اسرائیل کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اسرائیل کو ایسا لگا کہ دنیا میں کوئی سنی ملک ایسا بھی ہے جو فلسطینیوں سے ہمدردی رکھے اور اس کو کھانا پہنچائے۔ اس کی سزا اسے دی گئی، ملٹری بغاوت کی کوششوں سے چند دن پہلے سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ترکی کو اس بات کی دھمکی دی تھی کہ ترکی شام سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس بغاوت میں سعودی عرب اور اسرائیل کا براہ راست ہاتھ ہے لیکن امریکہ کو ان دونوں نے استعمال کیا تاکہ ان کا نام نہ آئے۔ ساری دنیا اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ امریکہ کو یہودی ہی کنٹرول کرتے ہیں۔ سعودی عرب سنی دنیا کا ٹھیکدار بن کر اسرائیل کے مفادات کی مکمل نگہبانی اسرائیل کے پیدائش سے ہی کررہا ہے۔ سارے عرب کی فوج اسرائیل سے جنگ لڑچکی ہے لیکن سعودی عرب واحد ملک ہے جس کی طرف سے ایک بھی گولی اسرائیل کے خلاف نہیں چلائی گئی۔

علامہ نے پاکستان کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا تھا

علامہ نے پاکستان کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا تھا

Pakistan_Iqbal#

علامہ اقبال نے اس خط کے چوتھے پیراگراف میں پاکستان کی تشکیل کا ایک لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے ہے کہ شمال مغربی ہندوستان میں ہندوستانی فیڈریشن کے اندر کئی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم ریاست تشکیل دی جائے اور پاکستان کی اسکیم کے تحت ہندوستانی فیڈریشن سے باہر کئی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم ریاست تشکیل دی جائےجو براہ راست انگلینڈ سے تعلق رکھے۔
اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے پاکستان کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا تھا۔ واضح رہے کہ قرارداد پاکستان 1940 میں پاس ہوا تھا۔ یہ خط 6 مارچ 1934 میں مسٹر راغب احسن کو تحریر کیا گیا تھا۔

L

یمن کی صورت حال سے آل سعود اور اس کے حواری سکتے میں

یمن کی صورت حال سے آل سعود اور اس کے حواری سکتے میں

#Yamen_Saudi_Arabia_situation# 

یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں لڑنے والے اتحاد کا حملہ مسلسل جاری ہے اور یہ عرب اتحاد مسلسل عوامی مقامات اور بازاروں اور مسجدوں پر حملے کررہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان ہو۔ پورے یمن میں عوامی پراپرٹی کو بڑے پیمانے پر تباہ کیا جارہا ہے جو انسانیت کے لئے باعث شرم ہے۔  سعودی عرب کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ وہ یمن کے لوگوں کو کبھی بھی شکست نہیں دے سکتے۔ یمن نے اپنی آزادی اور خودمختاری کا کبھی بھی سودا نہیں کیا ہے۔ حوثی تیزی سے جازان میں پیش قدمی کررہے ہیں۔ عسیر۔ جازان اور نجران یمن کے صوبے ہیں جس پر آل سعود قبصہ کررکھا ہے۔
یمنی وہ قوم ہے جسے خلافت عثمانیہ بھی شکست نہیں دے سکی۔ یمن پر 897عیسوی سے 1962عیسوی تک تقریبا ایک ہزار برس تک امامیہ حکومت رہی ہے ۔ 1962کو یمن جمہوریہ بنا۔ 1539 میں خلافت عثمانیہ نے مصر کے راستے 80000(اسی ہزار)فوجیوں کو یمن کو فتح کرنے کے لئے بھیجا لیکں یمن سے اسی ہزار میں سے سات ہزار ہی ترک فوج اپنی جان بچا کر بھاگ سکے، باقی کو یمنیوں نے خاتمہ کردیا۔ خلافت عثمانیہ اور یمنیوں کے درمیان یہ لڑائی 1539 سے1547 کے درمیان ہوتی رہی۔ جب خلافت عثمانیہ کی یہ حالت یمنیوں نے بنادی ،اس خلافت عثمانیہ کے حکمراں جس کے سامنے ہنگری اور آسٹریا کے حکمرانوں کے پر جلتے تھے، بھلا آل سعود اور اس کے حواریوں کی کیا حیثیت ہے۔ یمن پر کل بھی حوثی شیعوں کا غلبہ تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔اسی لئے اپنے ہمسایہ کے ساتھ غنڈہ گردی سے پرہیز کرنا چاہئے پرامن بقائے باہم پر یقین کرتے ہوئے معاملے طے کرنے چاہئے اور زمینی حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اسی میں آل سعود کی عافیت ہے نہیں تو اسے مزید تباہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

यमन की स्थिति से सऊदी अरब और उसके हामी सकते में

यमन की स्थिति से सऊदी अरब और उसके हामी सकते में

#Situation_in_Yemen_saudi_Arabia_tense#

यमन में सऊदी अरब के नेतृत्व में लड़ने वाले गठबंधन का हमला लगातार जारी है और यह अरब गठबंधन लगातार सार्वजनिक सथानों और बाजारों और मस्जिदों पर हमले कर रहा है ताकि अधिक से अधिक नुकसान हो। पूरे यमन में सार्वजनिक संपत्ति को बड़े पैमाने पर नष्ट किया जा रहा है जो मानवता के लिए शर्म की बात है। सऊदी अरब को यह बात अच्छी तरह याद रखनी चाहिए कि वह यमन के लोगों को कभी नहीं हरा सकता। यमन ने अपनी स्वतंत्रता और संप्रभुता का कभी सौदा नहीं किया है। हुसी तेजी से जाज़ान में पेशकदमी कर रहे हैं। असीर, जाज़ान और नजरान यमन के प्रांत हैं जिस पर आले सऊद कबजा कर रखा है।

यमन वह राष्ट्र है जिसे खिलाफत उस्मानिया भी नहीं हरा सकी। यमन में 897 ईसवी से 1962 ईसवी तक लगभग एक हजार वर्ष तक इमामिया सरकार रही है। 1962 को यमन गणराज्य बना। 1539 में खिलाफत उस्मानिया ने मिस्र के रास्ते 80000 (अस्सी हजार) सैनिकों को यमन पर कबजे के लिए भेजा लेकीन यमन से अस्सी हजार में से सात हजार ही तुर्की सेना अपनी जान बचा कर भाग सके, बाकी को यमनीयों  ने खत्म कर दिया।  तुर्क और यमनीयें  के बीच यह लड़ाई 1539 से 1547 के दरमयान होती रही। जब खिलाफत उस्मानिया की यह हालत यमनीयों  ने बना दी, इस खिलाफ़त उस्मानिया के शासक जिसके सामने हंगरी और ऑस्ट्रिया के शासकों झुकते थे, भला सऊदी अरब   और उसके चेलों की क्या हैसीयत है। यमन में कल भी हुसी शियों का प्रभुत्व था और आगे भी रहेगा।

आले सऊद और वहाबी शैतानी गिरोह

आले सऊद और वहाबी शैतानी गिरोह

#Ale_Saudi_wahabi_satanic_group#

जफर इकबाल

मिशक़ात शरीफ, अध्याय जिकरुल यमन वश शाम ज़िकर ओवैस करनी, हदीस संख्या: 6009
अनुवाद: इब्ने उमर (रज.) से रिवायत है कि नबी सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने दुआ फ़रमाई ऐ अल्लाह! हमें हमारे शाम में बरकत दे, ऐ अल्लाह! हमें हमारे यमन में बरकत दे लोग अर्ज़ गुज़ार हुए कि या रसूलल्लाह! और हमारे नजद में आप ने दुआ फ़रमाई ऐ अल्लाह! हमारे शाम में बरकत ऐ अल्लाह! हमारे यमन में बरकत दे लोग अर्ज़ गुज़ार हुए कि या रसूलल्लाह! और हमारे नजद में मेरे विचार में आप ने तीसरी बार कहा कि वहां तो भूकंप और फ़ित्ने होंगे और वहां से शैतानी गिरोह निकलेगा (रवाहुल बोखारी)
इस हदीस से इस बात का इलम होता है कि आले सऊद और मुहम्मद बिन अब्दुल वहाब जिनका संबंध नजद से है। हदीस में उन्हीं के संबंध में ये बातें कहीं गई हैं। नजद से संबंधित शैतान का एक समूह राजनीतिक सटबलश्मनट है और दोसरा धार्मिक सटबलश्मनट जिनका संबंध इसी नजद क्षेत्र से है। इन दोनों के संगम ने जो तबाही मचाई है, इस फ़ित्ने का संबंध यमन और सीरिया से है और समय भी दोनों का एक है और यह शैतानी गिरोह एक साथ शाम और यमन में जो खूनी खेल खेल रहे हैं और जो तबाही मचा रहे हैं यह शैतानी प्रक्रिया मानवता के खिलाफ है, लेकिन अल्लाह के पैगंबर सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने इन दोनों देशों के संबंध मैं दुआ फ़रमाई है दुआओं की बरकत से ही दोनों देशों को आले सऊद और उनके हामी नहीं हरा सके अगर उनकी जगह कोई और देश होता तो उनकी आक्रामकता के सामने घुटने टेक चुका होता है। दुनिया का कोई बाहरी देश इस तरह की साजिश अतीत में कभी सहन नहीं कर सकी है। इन दोनों देशों की इसतकामत को दुनया सलाम कहती है। प्रतिरोध की तारीख उनकी बहादुरी की मिसाल पेश करने में असमर्थ है।
फोन: 9958361526

सऊदी अरब की पाकिस्तान को नष्ट करने की साजिश

9/11 की घटना सऊदी अरब और इसराइल ने मिलकर अंजाम दिया है, विशेष रूप से यह कारनामा सऊदी अरब ने अंजाम दिया था ताकि पाकिस्तान को नष्ट किया जा सके, कुछ दिन पहले अमेरिकी अदालत में सऊदी अरब 9/11 के मामले में दोषी साबित हो चुका है। यह लेख मैं ऩे पहली बार 28 मार्च 2015 को लिखा था कि पाकिस्तान को नष्ट करने की सऊदी इच्छा क्यों है:

सऊदी अरब की पाकिस्तान को नष्ट करने की साजिश

#Saudi_Arabia_conspiracy_to_Destroyed_Pakistan#

जफर इकबाल

जब पाकिस्तान ने 28 मई 1998 में परमाणु परीक्षण किया तो इस्लामी पाकिस्तान की स्थिति और इसकी अहमीयत बहुत बढ़ गई, इस की वजह से विभिन्न देशों के मीडिया खासकर मुस्लिम देशों के अखबारों का अध्ययन करने के बाद पता चलता है कि पाकिस्तान का दुनिया का सातवां और इस्लामी दुनिया का पहला परमाणु देश बन जाने पर जबरदस्त खुशी व्यक्त किया गया, बल्कि इस्लामी दुनिया ने इस बात का संतोष भी महसूस किया कि अंततः पाकिस्तान जो हमारे समुदाय का देश है एक परमाणु शक्ति है। जिससे इस्लामी दुनिया मैं पाकिस्तान की इजजत बहुत बढ़ गई। इस उत्साह को देखते हुए पाकिस्तान के पूर्व जनरल और राष्ट्रपति परवेज मुशर्रफ भी पाकिस्तान को इस्लाम का कई बार किले करार दे चुके हैं।
पाकिस्तान का इस तरह उभरना और इस्लामी दुनिया में लोकप्रिय हो जाना सऊदी अरब को एक आंख भी नहीं भाया उसे ऐसा महसूस हुआ कि अगर पाकिस्तान की लोकप्रियता इसी तरह बढ़ती रही तो उसकी स्थिति शून्य हो जागी। उसने एक साजिश रची, इस साजिश की भनक जनरल परवेज मुशर्रफ को पहले लग गई तब उसने नवाज शरीफ का तख्ता पलट कर देश की सरकार पर कब्जा कर लिया।11 सितंबर 2001 को वर्ल्ड ट्रेड सेंटर पर हमला, इस हमले में उन्नीस हमलावरों में से 17 हमलावरों का संबंध सऊदी अरब से होना एक गहरी साजिश का पता देता है। इस साजिश में इजरायल, अमेरिका और सऊदी अरब पूरी तरह शामिल हैं, बल्कि सऊदी अरब ही निर्माता दिखाई देता है।, सऊदी अरब ने इजरायल और अमेरिका को आश्वासन किया कि किसी तरह पाकिस्तान को तुम सैन्य दृष्टि से सफाया कर दो इससे मेरी स्थिति इस्लामी दुनिया मै फिर बढ़ जाए गी। इजरायल और अमेरिका, विशेष रूप से इसराइल को इससे यह फायदा था कि पाकिस्तान से भविष्य में जो खतरा हो सकता है उसका अंत हो जाएगा वह इसलिए कि पाकिस्तान एक वैचारिक देश है, जो इस्लाम के नाम पर अस्तित्व में आया है, इसका उभरना इसराइल के लिए खतरे की घंटी है, उसका अंत हो।
इस साजिश के तहत नाइन इलेवन की घटना हुई और इसका आरोप अलकय़दा पर लगाया गया और अलकायदा के प्रमुख इस समय तालिबान शासित काबुल में मौजूद था, तालिबान सरकार जिसे पाकिस्तान मानता था। दरअसल पाकिस्तान को घेरने की यह सऊदी, इसराइल और अमरीकी साजिश थी साजिश को जनरल मुशर्रफ ने तुरंत महसूस किया, जब अमेरिकी राष्ट्रपति बुश ने धमकी देते हुए कहा कि '' अगर तुम मेरा साथ नहीं देते तो तुमको पतथर युग में पहुँचादेंगे। '' दारासल अमेरिका पाकिस्तान के परमाणु हथियारों पर कब्जा करने की वह साजिश
थी जो सऊदी अरब के इशारे पर अमेरिका कर रहा था, लेकिन जब नेतृत्व वयस्क होती है तो लोगों को छोटी परीक्षा से गुज़ार कर राष्ट्र को पूर्ण विनाश से बचालेती है। इसलिए जनरल मुशर्रफ ने हामी भरली, जब जनरल मुशर्रफ ने राष्ट्र को छोटी परीक्षा से गुज़ार कर बड़ी आपदा से बचा लिया। काबुल में अमेरिकी कब्जे के बाद पाकिस्तान को फिर भी चैन से नहीं रहने दिया गया। उस पर साम्प्रदायिक झगड़े का अंतहीन सिलसिला शुरू हो गया। 2003 में हज़ारा शिया जनजातियों के नरसंहार, 2007 में लाल मस्जिद की घटना उसी का सिलसिला है जो अब तक विभिन्न रूपों में जारी है। यह सभी साम्प्रदायिक झगड़े सऊदी अरब के इशारे पर हो रहे हैं ताकि पाकिस्तान कभी भी उसकी नेतृत्व को चुनौती देने की स्थिति में न रहे।
फोन: 9958361526

हम एक ऐसे आसमान के नीचे रहते हैं जहां अक्सर लोग ज़ालिम हैं

हम एक ऐसे आसमान  के नीचे रहते हैं जहां अक्सर लोग ज़ालिम हैं

#cow_shelter_in_Rajasthan#

मैं कल प्रसिद्ध टेलीविजन चैनल 'आज तक' पर राजस्थान के गउशाला की तस्वीरें देखें, इन तस्वीरों को देखकर मेरी रूह कांप गई। वह गउशाला नहीं तबाही का घर है या गैस चैंबर्स जैसी कोई जगह है, जहां गायें तिल तिल होकर मर रहे हैं। वह गाय जिसके लिए हमारे देश में दलितों और मुसलमानों को ज़लील व रुसवा ही नहीं बल्कि उनका खून बहाया जा रहा है। लेकिन गायें जो हमारे देशवासियों हिंदू अपनी माँ मानकर पूजा करते हैं। जो गाय की सुरक्षा के लिए जो गउशालो बनाए गए हैं। लेकीन इस गउशाल में गायों की जो हालत है हमारे लिए असहनीय है।  इस्लामी दुनिया के खलीफा राशिद द्वितीय उमर रज़ि का कहना है कि अगर कोई ऊँटनी हमारी शासन वाले देश में प्यासी मर जाए  इसके बारे में भी उम्र से पूछा जाएगा कि आप इस प्यासी ऊँटनी के लिए तालाब क्यों नहीं बनवाए। लेकिन यह क्रूर और बेहीस राष्ट्र और सरकार ने अत्याचार को चरम पर पहुंचा दिया। जो गायों की रक्षा के नाम पर सत्ता में आई लेकीन इन गायों को भारत के सबसे बड़े गउशाल में गायों के साथ जो हो रहा है वह असहनीय है। भारत में कैसे लोग और कैसी सरकार है जो इतना क्रूर हो सकती है, यह शर्म की बात है। इसकी जितनी भी निंदा की जाए कम है। हमें तो इन तस्वीरों को देखकर रूह कांप गई कि यह बे भाषा जानवर कैसे भूख और प्यास से तड़प कर मर रही है। यह आरएसएस के लोग कितने कपटी हैं और यहां की ज्यादातर आबादी भी पाखंडी है। वे इटली की बनी अच्छे चमड़े का जूता और बेल्ट भी इस्तेमाल करते हैं जो आमतौर पर गायों के चमड़े से तैयार किया जाता है। यह सब जानते हैं लेकीन इसके बावजुद हंगामा
करतें हैं।

قانون کی جیت ہوئی جمہوریت ہار گئی

قانون کی جیت ہوئی جمہوریت ہار گئی

#Democaracy_in_Delhi_Governor#

پانچ اگست2016  کو دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ آیا کہ دہلی کا باس لفٹننٹ گورنر ہے۔ میرا مقصد دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کرنا نہیں ہے، نہ میں کورٹ کے فیصلے کو مسترد کررہا ہوں۔دہلی ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا وہ آئین کے تحت تھا۔ اب رہا کہ آئین کو کون لوگ بناتے ہیں۔ آئین پارلیمنٹ بناتی ہے ۔ ہندوستانی آئین کوئی آفاقی آئین تو نہیں ہے جس میں کوئی ترمیم نہیں ہوسکے۔ ہندوستانی آئین کو بنانے والے انسان ہی تھے اور اس میں وقتا فوقتا ترمیم بھی ہوتی رہی ہے اور نئے قوانین بھی بنتے رہے ہیں۔
میرا مقصد یہ ہے کہ پانچ اگست کو دہلی ہائی کورٹ کا جو فیصلہ آیا اس سے جمہوریت کا کیا نقصان ہوا؟ اس فیصلے سے عوام کو کس قدر پریشانی ہوئی اور ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی برسراقتدار ہے لیکن اب دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کی حیثیت کیا رہ گئی ہے ؟ عام آدمی پارٹی ایک نئی پارٹی ہے جو انا ہزارے تحریک کے بطن سے نکلی ہے۔ کوئی نئی پارٹی بنتی ہے تو اس کے ساتھ بہت سارے وعدے اور امنگیں ہوتی ہیں، جو وہ کرناچاہتی ہے۔میں دہلی میں 1995 سے ہوں، میں نے صاحب سنگھ ورما (بی جے پی) اور شیلادکشت کی پندرہ سالہ دور حکومت کو دیکھا ہے اور اب عام آدمی پارٹی کی بظاہر دہلی میں حکومت ہے۔ شیلادکشت حکومت کا پہلا دور دہلی میں تھا اور مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت برسراقتدار تھی۔ لیکن اس وقت کے لفٹننٹ گورنر اور کانگریس کی حکومت کے درمیان بظاہر کوئی نوک جھونک نہیں ہوئی۔ شیلا دکشت بغیر کسی پریشانی کے حکومت کرتی رہیں۔ لفٹننٹ گورنر نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا ہے دہلی کا میں باس ہوں اور شیلا دکشت باس نہیں ہے۔لیکن پچھلے سال جب عام آدمی پارٹی دہلی میں لیند سلائڈ ووٹ کے ذریعہ برسراقتدار آئی۔ عام آدمی پارٹی کو دہلی کے عوام نے اپنی خواہش کی تکمیل اور عوام کی امنگوں کی تکمیل کے لئے برسراقتدار لایا۔ عوام نے بھاری رائے دہندگی کے ذریعے عام آدمی پارٹی کو دہلی میں حکومت کے لئے چنا۔لیکن آئین یہ کہتا کہ دہلی کا اصل باس لفٹننٹ گورنر ہے۔ دہلی حکومت جو ایک عوام کی چنی ہوئی حکومت ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اسمبلی کوئی بھی اجتماعی فیصلہ لے گی اس کو لفٹننٹ گورنر چاہے قبول کرسکتا ہے یا مسترد کرسکتا ہے۔ وہ لفٹننٹ گورنر کی صوابدید پر ہے۔ کیا ہمیں اور آپ کو اور کانگریس اور بی جے پی اور دیگر پارٹی کو ایسا نہیں لگتا کہ عوام نے جس کو چنا ہے وہ فیصلے نہ لے سکے کیایہ عوام کی توہین نہیں ہے؟ عوام کے فیصلے کی توہین نہیں ہے؟ دہلی کی عوام نے لفٹننٹ گورنر کو نہیں چنا ہے بلکہ اروند کیجری وال کو چنا ہے۔ کیا سینٹرل گورنمنٹ اور اپوزیشن اس قانون کو کیوں نہیں بدل دے جس سے عوام کے دکھوں کا مداوا ہوسکے ۔اب عوام کدھر جائے۔


دنیا میں اگر ذاکر نائک کو اللہ کے علاوہ کوئی بچا سکتا ہے وہ آل سعود ہے؟

دنیا میں اگر ذاکر نائک کو اللہ کے علاوہ کوئی بچا سکتا ہے وہ آل سعود ہے؟

#zakir_naik_saudi_government_India#

کیا ذاکر نائیک کے معاملے میں ہندوستانی حکومت سعودی عرب کے آل سعود حکومت کے سامنے جھک سکتی ہے؟ کیا ہندوستان کی جمہوری حکومت ایک بادشاہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی؟ کیا یہ جمہوری ہندوستانی کی توہین نہیں ہوگی کہ ایک ڈکٹیٹر کے سامنے ہندوستان کی منتخب حکومت جھک گئی؟ اس طرح کے پورے امکانات ہیں جس سے ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں؟ ہمیں اس سلسلے میں کافی محتاط رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ آل سعود حکومت کافی بارسوخ ہے جس سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔ امریکہ اور برطانیہ میں بھی وہ اپنی رسوخ کا بارہا استعمال کرتا رہا ہے۔ ذاکر نائیک نے فرقہ پرستی کا جس طرح بیج بویا ہے جو اس نے فصل بوئے ہے۔ وہ تو کاٹنی پڑے گی۔ دنیا میں ہرطرف دہشت گردی کا بازار گرم ہے، جس کے پس پردہ وہابی افکار کام کررہا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک وہابی افکار کے سب سے بڑے مبلغ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

پاکستان کو کامیاب ملک بننا ہے تو زمینداری کا خاتمہ ضروری

پاکستان کو کامیاب ملک بننا ہے تو زمینداری کا خاتمہ ضروری

#Pakistan_Land_lord_system_removed

پاکستان میں جب تک چھوٹے چھوٹے راجہ یعنی زمینداروں سے اس کی زمینیں نہیں لی جائیں گی جس طرح ہندوستان میں آزادی کے فورا بعد ہی زمینداری کا خاتمہ ہوگیا تھا اس وقت تک پاکستان میں مزدور طبقیکی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، لوگ ہمیشہ پریشان رہیں گے۔اس وقت تک اسلامی نظام وہاں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ سب سے زیادہ مزاحمت اگر ہوگی تو انہیں زمینداروں کی طرف سے ہوگی۔وہ زمیند دار طبقہ سازش کرکے آپ کا اسی طرح خاتمہ کردیں گے جس طرح سعودی بادشاہوں نے محمد مرسی اور ان کے حامیوں کاخاتمہ کردیا۔

ميرى ماں مسلم امہ ہے:علامہ اقبال

ميرى ماں مسلم امہ ہے:علامہ اقبال

#Iqbal_my_mother_Muslim_Ummah# 

علامہ اقبال کى اردوشاعرى باضا بطہ ديوان کى شکل ميں 1924ميں “بانگ درا ”کے نام سے پہلى مرتبہ منظر عام پر آئى۔ اس سے پہلے ان کى مختلف اردو نظميں مختلف رسائل و جرائد ميں شائع ہوتے رہے۔ انہى رسائل و جرائداور اخبارات کے ذريعہ ان کى شاعرى کى دھوم ہندوستان ميں ہر جگہ پھيل گئى تھى۔
جب علامہ اقبال کى اردو شاعرى پر مشتمل پہلا ديوان شائع ہوا توپنجاب يونيورسٹى ، لاہور سے ہندوطالب علموں پر مشتمل ايک گروپ علامہ سے ملنے کے لئے ان کے گھر آيا۔ ان طالب علمو ںنے علامہ اقبال سے کہا کہ آپ ہميں بھول گئے ہيں، ہميں آپ کى ترانہ ہندى، نيا شوالہ جيسى نظميں ياد آتى ہيں، تو علامہ اقبال نے ان طالب علموں کو جواب ديا کہ ميں ايک مثال کے ذريعہ تمہيں سمجھاتاہوں، “مان لوکہ ميرى ماں سخت بيمار ہے اور وہ نزع کى حالت ميں ہے اور تمہارى ماں بھى سخت بيمار ہے،ميں تم سے سوال کرتا ہوں کہ ميں اپنى ماں کى تيمادارى کروں يا تمہارى ماں کى تيمادارى کروں۔” ان تمام طالب علموں نے بيک وقت جواب ديا کہ آپ يقيناً اپنى ماں کى تيمادارى کريں گے۔ تب علامہ اقبال نے ان طالب علموں کو جواب ديا کہ ميرى ماں “امت مسلمہ”ہے، وہ نزع کى حالت ميں ہےاسے ميرى سخت ضرورت ہے۔ اس لئے ميں نے اپنى شاعرى کا رخ مسلم امہ کى طرف موڑ دياہے۔اس جواب کے سننے کے بعد ہندو طالب علموں پر مشتمل گروپ علامہ اقبال سے مايوس ہوکر لوٹ گيا۔

علامہ اقبال سے مطالبہ اور رابندرناتھ ٹيگور سے گريزاں

علامہ اقبال سے مطالبہ اور رابندرناتھ ٹيگور سے گريزاں

#iqbal_tagore# 
ہندوستان کے مشہور مفکررابندر ناتھ ٹیگور تھے، جو علامہ اقبال کے ہم عصر بھى تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے نہج پر اور اپنی اپنی شعبوں ميں کاميابى کے ساتھ عوام کى بھلائى کے لئے کام کيا۔ ابتداء ميں علامہ اقبال کا نظريہ ہندومسلم اتحاد کى طرف تھا ليکن بعد ميں وہ اس نتيجہ پر پہنچے کہ ايسا ممکن نہيں ہے۔ مسلم قوم نہايت ہى پستى سے دوچار ہے جس قوم سے علامہ اقبال کا تعلق ہے سب سے پہلے ان کى ذمہ دارى بنتى ہے کہ وہ اپنى قوم کى احياء کى کوشش کريں، اس لئے وہ مسلم امہ کى سربلندى کى کوششوں ميں جٹ گئے۔برادران وطن جو مطالبہ اقبال سے کرسکتے ہيں اسى طرح کا مطالبہ ہميں يعنى مسلم امہ کو رابندر ناتھ ٹيگور سے بھى کرنا چاہئے کہ انہوں نے مسلم کاز کے لئے کيوں نہيں کام کيا بلکہ ان کى سارى تگ و دو اور جہدوجہد اپنى قوم کى احياء کى تھى۔ ليکن ہم صرف اقبال سے تو مطالبہ کرتے ہيں وہ ہمارے کاز کے لئے کام کرے ليکن مسلم امہ کو رابندر ناتھ ٹيگور سے بھى اسى طرح کامطالبہ کرنا چاہئے تھا۔

اقبال کے سیاسی افکار

میری پہلی کتاب ’’اقبال کے سیاسی افکار‘‘ جو ایم فل کا مقالہ ہے، اس کو ریختہ آن لائن ای۔بک کے ذریعہ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
#iqbal_siyasi_afkar#
https://rekhta.org/…/iqbal-ke-siyasi-afkar-zafar-iqbal-eboo…


تبلیغی جماعت کے تعلق سے ایک اہل حدیث کے بکواس کا جواب

تبلیغی جماعت کے تعلق سے ایک اہل حدیث کے بکواس کا جواب

#Tablighi_jamat_ahle_hadees 

تبلیغی جماعت والے اتنے سیدھے ہیں کہ وہ پلٹ کر جواب بھی نہیں دیتے ہیں۔ آپ نے خود محلے میں مشاہدے کیا ہوگا۔ ہم نے شاہین باغ، نئی دہلی میں خود مشاہدہ کیا ہے کئی سبزی فروش جو گندے رہتے تھے اور نماز بھی نہیں پڑھتے تھے لیکن تبلیغی جماعت کی کوششوں کی وجہ سے نماز بھی پڑھنے لگے اور صاف ستھرے بھی رہنے لگے۔ ابھی حالیہ دنوں مظفر نگر (یوپی) کے رہنے والے ایک صاحب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے تبلیغی جماعت نے وہاں کافی کام کیا ہے خاص طور سے گاؤں کے اندر ان کے اثرات کافی بڑھ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ مظفر نگر میں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے، جہاں کچھ عرصہ پہلے تک جرائم کی شرح کافی بڑھ گئی تھی لیکن حالیہ عرصوں میں تبلیغی جماعت کی کوششوں سے وہاں جرائم کی شرح میں کافی کمی آئی ہے۔ لوگ جہاں اچھی باتوں اور نماز کی طرف راغب ہوئے تو ان کے اندر کافی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ آپسی رنجش، قتل، دوسروں کی زمین پر قبضہ اور اسی طرح بہت سے واقعات میں کافی کمی دیکھی گئی۔ لیکن اپنے آپ کو خود ساختہ اہل حدیث کہنے والے خود حدیث کو نہیں مانتے ہیں اپنی مطلب کی حدیث کو مانتے ہیں۔ خود غیر مقلد ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن ابن تیمیہ اور محمد عبدالوہاب کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں کی بات مانتے ہیں۔ کیا بات ہوئی تضاد صرف تضاد۔ خود اہل حدیث کہلانے والے صرف اپنے بزرگوں کی کتاب پڑھتے ہیں اور خود قرآن سے براہ راست استفادہ نہیں کرتے ہیں۔ ان کے بڑے نے جو بات کہہ دی اسے کو آگے پہنچاتے رہتے ہیں اور اہل حدیث مغرور بھی بہت ہوتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم انہیں غرہ کس بات کا ہے۔ شاید وہ یہودیوں کے طرح یہ سوچتے ہیں کہ سارے مسلمان کافر ہیں اور ہم تو اللہ کو ماننے والے ہیں۔ ارے
ابلیس سے بڑا کوئی موحد ہوگا لیکن صرف موحد ہونے سے کوئی بچ سکا ہے جس طرح ابلیس موحد ہونے کی وجہ سےنہیں بچ سکتا تو یہ خود ساختہ اہل حدیث کہلانے والے کیا خاک بچیں گے۔

آج کے حسین (رضی)شہید نہیں ہوں گے

آج کے حسین (رضی)شہید نہیں ہوں گے

#Hussain_Yazid#

کیا بار بار حسین (رضی)ہی شہید ہوں گے تاکہ یزید مزے مارے، ساری قوم مل کر یزید کے حامیوں کا ہی صفایا کیوں نہیں کردیتے ہیں۔اس سے بہتر حل نہیں ہوسکتا۔ عبدالفتاح سیسی اور ان کے حامی ممالک سعودی عرب اور امارات اور قطر کے حکمرانی کا خاتمہ کردیجئے تب دیکھیے عالم اسلام کیسے پرامن ہوجاتا ہے۔ محرک کا خاتمہ کردیجئے۔ اصل چیز محرک ہے۔ ان مذکورہ ممالک میں جمہوریت لادیجئے۔ عوامی طور سے منتخب حکومت ہوگی تو لوگوں پر زیادہ ظلم نہیں ہوسکے گا۔ طاقت کا احتکار ہی لوگوں کو فرعون بنادیتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو چاہے میں کرسکتا ہوں۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔

احمدبخاری کی تاریخ سے عدم واقفیت

 احمدبخاری کی تاریخ سے عدم واقفیت

Ahmed_bukhari_unknown_History#
 دہلی کے جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری کا بیان ناواقفیت اور تاریخ سے عدم آگہی پر مبنی ہے۔
شیعوں کا سب سے پہلا اور بڑا قتل عام 113 ہجری میں کربلا میں ہواتھا جب اس شہر کے تمام شیعہ جوان مردوعورت نجف اشرف گئے ہوئے تھے ، اس وقت باقی ماندہ 30 ہزار بوڑھے مردوعورتیں اور بچوں کو ذبح کردیا گیاتھا، اسی کے پیش نظر موجودہ حالت میں آیت اللہ سستانی کا فتوی آیا ہے کہ عراق کے تمام شیعہ ان تکفیریوں کے خلاف کھڑے ہوجائیں اور اپنی دفاع کے لئے داعش کے خلاف جنگ کریں نہیں تو ماضی کی طرح اسی طرح کا قتل عام پھر ہوسکتا ہے۔ جس طرح شام میں مذہبی مقامات کئی جگہ تباہ کئے گئے ہیں اسی طرح یہاں بھی دہشت گرد مزاروں کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں۔ان دہشت گروں کا اعلانیہ ایجنڈاہے کہ تمام مذہبی مزاروں کو تباہ کردیں گے۔
رہا امریکہ اور ایران کا عراق کے معاملے میں باہم تعاون کرنا ، ایسا تاریخ میں پہلے بھی ہوچکا ہے، ایک کٹر دشمن کا دوسرے کٹر دشمن کی مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں باہمی مدد پر آمادہ ہونا۔ اس صورت حال کی سب سے واضح مثال ہم جنگ کریمیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ جنگ روس اور خلافت عثمانیہ کے درمیان 1853 سے 1856 تک ہوئی۔ یہ نہایت خطرناک جنگ تھی لیکن بعد میں خلافت عثمانیہ کا کٹر دشمن برطانیہ اور فرانس بھی اس جنگ میں خلافت عثمانیہ کی حمایت میں روس کے خلاف جنگ میں شامل ہوگئے۔ تبھی یہ جنگ خلافت عثمانیہ روس سے جیت سکی۔

روس کی جانب سے مسلم امہ کو خراج تحسین

روس کی جانب سے مسلم امہ کو خراج تحسین

#Russia_Muslim_Ummah

روس کی جانب سے مسلم امہ کو ایک خراج تحسین، روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ماسکو میں یوروپ کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح پچھلے سال کیا تھا ،یہ مسجد ہندوستانی کرنسی میں گیارہ سو کروڑ روپے کی لاگت سے دس برسوں میں تیار ہوئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ولادیمیر پوتن کی پالیسی امت مسلمہ کے تعلق سے ایک غیر معمولی عہد میں داخل ہوگئی ہے۔ مجھے بار بار مولانا مودودی (رح)یاد اّرہے ہیں جنہوں نے ساٹھ برس پیشتر یہ بات کہی تھی کہ ایک زمانہ ایسا اّئے گا کہ کمیونزم کو ماسکو میں جگہ نہیں ملے گی۔اس کا نظارہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ روس میں کئی کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔جن پر زبردست مذہبی پابندی تھی لیکن اب وہ آزادی کا احساس ضرور کررہے ہوں گے۔

سید شہاب الدین کی ناکام قیادت

سید شہاب الدین کی ناکام قیادت

#syed_shahabuddin_muslim_Leadership

سید شہاب الدین صاحب ایسے مرد درویش ہیں جنہوں نے اس قوم کو جو بھی مشورہ دیئے ہیں اور جو کچھ اس قوم کے لئے کیا اس سے صرف تباہی ہی آئی۔ یہ ایسے مرد درویش ہیں جن کی فکری اپج کی وجہ سے ہی بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ کشمیر کے تناظر میں عجیب و غریب مشورے دیئے۔ وہ مشورہ یہ تھا کہ فرانس کی سرحد پر ایک چھوٹی سی ریاست انڈورا نامی واقع ہے اسی طرز حکمرانی کو کشمیر میں لاگو کیا جائے اور ہندوستان اور پاکستان دونوں فریق اس کے لئے راضی ہوجائیں۔ اس سے بہتر کشمیر کا کوئی حل نہیں ہے۔ وہ بہترین مقرر ہوسکتے ہیں۔ بہترین ڈرافٹ مین ہوسکتے ہیں لیکن ایک مفکر کی حیثیت سے صحیح فکر تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ اب تو خیر عالم پیری میں پہنچ چکے ہیں۔اللہ ان کو صحیح فیصلے تک پہنچنے کی توفیق عطا کرے۔

حاتم طائی مسلمان نہیں تھے

حاتم طائی مسلمان نہیں تھے

#Arabian_nights_Hatim_tai#
حاتم طائی کو بہت سارے لوگ مسلمان سمجھتے ہیں، خاص طور سے الف لیلہ دراصل ایک ہزار کہانیوں پر مشتمل ایک ایسی داستان ہے جس میں کہانیوں میں سے کہانی نکلتی جاتی ہے۔ جو ایک ہزار کہانیوں پر مشتمل ہوگئی ہے۔ جس میں ایک کہانی حاتم طائی کی بھی ہے۔ حاتم طائی مسلمان نہیں تھے، حاتم طائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے۔ حاتم طائی کے اندر زبردست انسانی خصوصیات تھیں۔ وہ مکمل انسانیت کے حامل تھے۔ تبھی انہو ں نے جودوسخاوت کی وہ اعلی مثال قائم کی ،جو شاید ہی ان کے بعد کسی کے اندر ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب حاتم طائی کی بیٹی سے ملاقات ہوئی تو ان کے والد کی وجہ سے ان کی کافی عزت و تکریم کی۔حاتم طائی کے اقوال یقیناًآب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ جنہو ں نے انسانیت کے لئے جو اعلی نمونہ چھوڑا ہے وہ قابل تقلید ہے۔

ایران عالم اسلام کے لئے مثل راہ

ایران عالم اسلام کے لئے مثل راہ

#Iran_Muslim_Ummah_Iqbal#
 علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر سے کون احمق انکار کرسکتا ہے۔علامہ اقبال نے تصور پاکستان کا نظریہ پیش کیا ہے۔ ان کے یہ اشعار ایران کے تعلق سے ملاحظہ فرمائیں۔
پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیت نے افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گرچہ عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
ہم آج جس عہد میں جی رہے ہیں اسی ایران کے تعلق سے علامہ اقبال نے یہ اشعار کہے ہیں۔ ایران میں جلد ہی ایک اسلامی انقلاب آئے گا، اس اسلامی انقلاب کی برکت سے ایران دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہوجائے گا۔ علامہ اقبال کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ ایران میں اکثریت شیعوں کی ہے اور ان کے نظریات سے  ہم لوگوں سے زیادہ علامہ اقبال واقف تھے۔ہم لوگ چند مولویوں کے غلط نظرہات اور سعودی وہابیوں اور تکفیریوں کی ایران دشمنی میں ایران کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ ہم اس انقلاب کو مانیں یا نہ مانیں ایران کا اسلامی انقلاب تمام برکتوں کے ساتھ اس دنیا کو سیراب ضرور کرے گا۔
علامہ اقبال کا ایک مصرعہ ہے:
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
جب ستارے آپس میں ملتے ہیں تب ہی کہکشاں بنتے ہیں۔ الحمد اللہ ایران میں بہت سارے ستارے ہیں جو اس دنیا کے آسمان میں کہکشاں کی طرح چمکیں گے۔ ایران اس وقت سائنس و دفاعی سائنس اور دنیا کے ہر شعبہ میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ وہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر بات کررہا ہے۔ جلد ہی ایران مغرب کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بہت آگے جاچکا ہوگا۔آپ اس وقت محو حیرت ہوں گے۔ آپ کو اس بات کا افسوس ہوگا کہ اب تک ہم غلط سمت میں جارہے تھے۔