Tuesday, 23 August 2016

اقبال کی سیاسی بصیرت

اقبال کی سیاسی بصیرت

#Political_thoughts_of_Iqbal#

 

 از: ظفراقبال


شاعرمشرق علامہ اقبالؔ نے اپنی شاعری کے توسط سے ساری انسانیت اور بالخصوص امت مسلمہ کو جو آفاقی پیغام دیا ہے۔ وہ ساری انسانیت کے درد کا مداوا ہے ۔ انہو ں نے اپنی شاعری کے توسط سے نواستعماریت کے خلاف محکوم اقوام کو بیدار کرنے کی جو کوششیں کی ہیں،وہ صرف انہی کا خاصہ ہیں۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر جو آنسو بہائے ہیں انہیں کے طفیل اقبالؔ جیسی دیدور شخصیت پیدا ہوئی ہے یہ شخصیت جب ایک طائرانہ نظر خود اپنے ملک، ساری دنیا اور بالخصوص عالم اسلام پر ڈالتی ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ اس مرحلہ پر وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں وہ ان ظالموں کے خلاف اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قوموں کے اندر ان کی خودی کو بیدار کرنے کی کوششیں کریں گے۔ جب ان کی خودی بیدار ہوجائے گی تو یہ محکوم اور مظلوم قومیں اپنی خودی اور اپنی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ظلم، اور غلامی اور نواستعماریت کی زنجیروں کو توڑ دیں گی ۔ اس کے بعدساری انسانیت عدل و انصاف سے مستفید ہوسکے گی۔
ابتدا میں اقبالؔ کی شاعری زیادہ تر وطن کی محبت میں سرشار نظر آتی ہے۔ کیونکہ یہ زمانہ تھا جب ہندوستان غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے کروٹ بدل رہا تھا۔ ایک طرف اپنی غلامی، پسماندگی اور محکومی کے اسباب تلاش کئے جارہے تھے اور سماج اور معاشرہ کی اصلاح کے ساتھ عظمت رفتہ کی بازیافت کی کوششیں ہورہی تھی تو دوسری طرف ایک نئی دنیا اور نئے سماج کی تعمیر کا خواب دیکھا جارہا تھا۔ ہمالہ، تصویر درد، ترانہ ہندی، نیا شوالہ جیسی نظمیں اس عہد کی نمائندہ ہیں۔ اس کے بعد کچھ ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے ان کی فکر میں ایک زبردست تبدیلی ہوتی ہے۔ وطن کی محبت میں سرشار اقبال کو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسی سمت میں جارہے ہیں جو یقیناًان کا مطمع نظر نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی شاعری ایک اور قالب میں ڈھلنے لگتی ہے مگریہ تبدیلی ان کے یورپ کے قیام اور وہاں کے سیاسی اور سماجی حالات کے براہ راست اور بغور مشاہدہ کا نتیجہ ہے کیونکہ یورپ میں ہی انہوں نے سرمایہ داری، مادہ پرستی، اخلاقی قدروں کی پامالی، امتیاز رنگ و خون اور نسلی تفاخر پر مبنی جارحانہ وطن پرستی کے مظاہر خود اپنی آنکھوں سے دیکھے اور محسوس کیا کہ وطنیت کا خمار دور سے بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب قریب سے اس کا مشاہدہ کیا جائے تواس کے اندرکی چنگیزیت نظرآتی ہے۔ اس کے بعد انہو ں نے اپنی شاعری کو وطنیت جیسی کسی چہاردیواری میں مقید کرنے کے بجائے ساری دنیا اور ساری انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے محکوم قوموں کو بیدارکرنے کا فیصلہ کیا جنہیں دنیا کی نواستعماری طاقتیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے غلام بنانے کی کوشش کررہی تھیں۔
اقبالؔ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جب وہ اپنی وطنی شاعری سے ملی شاعری کی طرف پلٹے تو صرف ایک اسلامی شاعر بن کر رہ گئے۔ یہ الزام سراسرغلط اوران کی شاعری اور پیغام سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔یہ صحیح ہے کہ اقبال کے دوسرے دور کی شاعری کا محور اسلام ہے مگر ان کی فکر میں اسلام مخصوص رسوم، عبادات اور عقائد کا نام نہیں ہے بلکہ ایک فعال، سرگرم اور متحرک نظریہ حیات ہے۔ جس میں حریت، آزادی، بے نیازی، زور حیدری اور فقربوذر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور جو ہر ظلم و جبر، محکومی اور غلامی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتا ہے۔
اقبال کی شاعری میں ملی تصور کا آغاز آپ کے سفر یورپ کے بعدیعنی ۱۹۰۸ء سے باضابطہ شروع ہوتا ہے۔ جب آپ یورپ میں تھے تبھی آپ نے محسوس کرلیا تھا کہ یورپ کا جو ظاہری چہرہ ہے وہ کچھ اور ہے اور باطنی چہرہ کچھ اور ہے۔زمانہ قیام یورپ میں ان کی شاعری میں ایک خو ش آئند مگر عظیم الشان انقلاب پیدا ہوگیا ۔ انہو ں نے مغربی تہذیب و سیاست کو بہت نزدیک سے دیکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں چیزوں کے مفاسد ان پر بخوبی آشکار ہوگئے اور ان پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ یہ قومیت و وطنیت بنی آدم کے حق میں کبھی مفیدنہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی بنیاد تعصب اور تنگ نظری پر ہے دوسری بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب کانتیجہ انسانوں کے حق میں تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیاد مادیت اور انکارِ خدا پرہے۔
اس عرصہ میں انہو ں نے اسلامی اصول اور اسلامی تاریخ کا بہت غور کے ساتھ مطالعہ کیا اس لئے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ دنیا کی نجات اسلامی اصول زندگی کی تبلیغ و اشاعت میں مضمر ہے۔
جب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ آئندہ اپنی شاعری کو اسلامی مقاصد کے حصول کے لئے اور امت مسلمہ کی سربلندی کے لئے وقف کردیں گے تو قدرتی طور پران کی شاعر میں ’’پیغام‘‘کا رنگ پیدا ہوگیا۔ جو ۱۹۰۸سے لے کر ۱۹۳۸ء تک ہر تصنیف اور ہر نظم میں نظر آتا ہے۔
سفر یورپ کے واپسی کے بعد ان کے اندر ایک طرح سے جو تذبذب اور جستجو تھی وہ پوری طرح زائل ہوگئی اور ان کو یقین محکم ہوگیا اور انہو ں نے اپنے لئے ایک سمت ڈھونڈ لی کہ اب اپنی خداداد صلاحیت شاعری کے ذریعہ وہ امت مسلمہ کی بھلائی اور امت کے اندر بیداری لانے کی کوشش کریں گے۔چنانچہ ۱۹۰۷ء میں انہو ں نے یورپ سے جو نظم علی گڑھ کالج کے طلبہ کے نام لکھ کر بھیجی تھی وہ دراصل ان کا پہلا پیغام ہے جو انہو ں نے اپنی قوم کی وساطت سے دنیا کو دیا اور غور سے دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی زندگی کے باقی ماندہ تیس سال اسی پیغام کی وضاحت میں گذار دےئے۔
چنانچہ مارچ ۱۹۰۷ء میں انہوں ایک نظم لکھی جس کے اشعار مندرجہ ذیل ہیں:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار ہوگا
سکوت تھا وہ پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گذر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوارہ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگاکہ منھ پھٹ ہے خوار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا
اس کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرنے والی نظمیں لکھیں اور مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے آگاہ کیا۔نظم صقلیہ اسی مقصد کے لئے لکھی گئی تھی۔ اس نظم کے چندا شعار ملاحظہ ہوں:
رولے اب دل کھول کر اے دیدہ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے
آہ اے سسلی! سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو
تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا
حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا
نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر
آسمان نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستان لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں، اوروں کو وہاں رلاؤں گا
اسی طرح اقبال نے اپنی نظم ’’ترانہ ملی‘‘دراصل وطنیت (Nationalism)کے عقیدہ کی تردید ہے۔ اقبال وطن کی محبت میں بالکل دیوانے سے ہوگئے تھے اور اسی محبت کی وجہ سے انہو ں نے ’’ترانہ ہندی‘‘ نظم لکھی تھی جب انہوں نے یورپ کا سفر کیا اور وہاں سے واپسی ہوئی اور انہو ں نے یورپ میں وطنیت کے تعلق سے جو خرابیاں اور اس کی تباہ کاریاں دیکھیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وطن کے نام پر لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں۔بشریت جیسی کوئی چیز ان قوموں میں نظر نہیں آتی ہے۔ اس طرح وہ اس نظریہ سے تائب ہوکر خالص اسلام کی طرف مائل ہوئے اور انہوں نے ’’ترانہ ملی‘‘ کے نام سے نظم لکھی اور ترانہ ہندی کا ایک طرح سے کفارہ ادا کیا۔
اس نظم کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اسی طرح اقبال نے اپنی نظم ’’وطنیت‘‘(یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) اس نظم میں اقبال نے پوری طرح سے صراحت کی ہے کہ وطن کا تعلق اگر عام مفہوم سے ہے تو یہ بات بجا ہے کہ وطن سے ہر شخص کو قدرتی لگاؤ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ وطنیت سیاسی معنی میں مستعمل ہے تو یہ وطنیت خالص اس امت کے لئے تباہی کا باعث ہوگی۔چنانچہ اسی اصول وطنیت کے دام میں گرفتارہوکر عربوں نے ۱۹۱۶ء میں انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا ۔ اس کی سزا وہ آج تک اسرائیل نام کی ایک سلطنت کو عالم اسلام کے قلب میں قائم دیکھ رہے ہیں۔جب جنوری ۱۹۳۸ء میں مولانا حسین احمد مدنی نے دہلی کے جلسہ میں یہ کہا تھاکہ ’’موجودہ زمانہ میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ تو اقبال نے ان کے اس غیر اسلامی نظریے کے خلاف سخت سرزنش کی تھی ۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ’’حسین احمد مدنی‘‘ کے عنوان سے ایک قطعہ ہ جو درج ذیل ہے۔
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمدؐ ایں چہ بوالعجبی است
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقامِ محمد عربیؐ است
بمصطفےؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اسی طرح بانگِ درا میں اقبالؔ نے ’’وطنیت‘‘ کے تصور کو پاش پاش کرنے کے لئے ’’وطنیت‘‘ (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے اس کا پہلا بند ملاحظہ ہو:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
ان بصیرت قابل دید تھی کہ وہ قوموں کی تاریخ سے زبردست واقفیت رکھتے تھے۔ ان کا تجزیہ بہت ہی احسن ہوتا تھا اور ان کی نگاہیں اس چیز پر پڑتی تھی جو دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہوتی تھیں۔
’’دریوزہ خلافت‘‘ یعنی خلافت کی بھیک نظم کا تعلق ان واقعات سے ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کو عربوں کی غداری کی بدولت شکست فاش نصیب ہوئی چنانچہ۳ نومبر ۱۹۱۸ء کو ترکوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دےئے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن انگریزوں کی دلی تمنا پوری ہوگئی ۔چنانچہ برطانیہ کے وزیراعظم نے جب جنرل ایلینی فاتح فلسطین کے سینے پر تمغہ لگایا تو اس کی فتح کو ہلال پر صلیب کی فتح قرار دیا اور کہاکہ سلطان صلاح الدین کے ہاتھوں جو شکست ہمیں نصیب ہوئی تھی اس کا انتقام اب ہم نے لیا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں انگریزوں نے ہندوستان کے مسلمان کے ساتھ جو جھوٹے وعدے کئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھاکہ خواہ کچھ بھی ہو ترکی کی سالمیت برقرار رکھی جائے گی۔ لیکن برطانیہ نے ترکی کے خاتمے کے لئے کارروائی شروع کردی۔مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی قیادت میں دسمبر ۱۹۱۹ء میں امرتسر میں خلافت کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں یہ طے پایا کہ جنوری ۱۹۲۰ء میں برطانیہ ایک وفد روانہ کیا جائے جو حکومت برطانیہ سے درخواست کرے کہ خلاف کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ یہ وفد آٹھ مہینے برطانیہ میں رہ کر ۶۵ ہزار روپے ضائع کرنے کے بعد بے نیل و مرام واپس آیا تھا۔
اقبالؔ کی نگاہ دوربین نے پہلے ہی محسوس کرلیا تھا کہ حکومت برطانیہ جو خود زوال خلافت کی سب سے زیادہ آرزو مند ہے وہ کب ارکانِ وفد کی باتوں پر غور کرے گی اس لئے انہوں نے یہ نظم تحریر کی ۔
اس نظم کے اشعار ملاحظہ ہو:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگاہی کیا؟
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی
اقبال اگر محدود معنوں میں اسلامی شاعر ہوتے تو بال جبریل کی طویل نظم ساقی نامہ میں چین کے تعلق سے یہ پیشین گوئی نہ کرتے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کا بانی ایک مداری کی طرح اپنا کھیل دکھاکر رخصت ہوجائے گا تو یہ گراں خواب چینی جنہیں فرنگیوں نے افیم کھلا کھلا کر مدہوش کررکھا ہے وہ اس نظام کی جگہ ایک متبال نظام فراہم کریں گے۔ جب ہم آج کے حالات پر غور کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے تین چوتھائی صدی قبل جو پیشین گوئی کی تھی وہ ہوبہو صحیح ثابت ہورہی ہے۔ چین ایشیا میں معاشی اعتبار سے سب سے طاقت ور ملک بن چکا ہے اور صرف امریکہ سے ہی پیچھے ہے ۔اب یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ وہ چند سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔ اس طرح اقبالؔ کی چین کے تعلق سے پیشین گوئی حقیقت بن رہی ہے۔ چین کے بارے میں ان کی یہ پیش گوئی محکوم اور زیردست قوموں کے ساتھ ان کی ہمدردی اور وابستگی کا ثبوت ہے۔
بالِ جبریل میں ’’ساقی نامہ‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبالؔ کی نظم غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اس نظم میں غیر معمولی سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔ اقبالؔ نے اس نظم میں حالات حاضرہ اور مسلمانوں کی موجودہ حالت پر تبصرہ کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ہر جگہ انقلاب کارفرما نظر آتا ہے۔ بنی آدم کی طرز حیات میں عظیم الشان تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور نئی تحریکیں پیدا ہورہی ہیں اور عصر حاضر کی جدید سیاست میں زبردست تبدیلی ہونے والی ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے بہت سے معاملات میں پیشین گوئی بھی کی ہے۔ چینی جو صدیوں سے شہنشاہی پرستی کی لعنت میں گرفتار تھے۔ اپنی آزادی کے لئے میدان میں آچکے ہیں اور اقبال نے صرف آزادی ہی نہیں بلکہ دنیا کی ایک بڑی طاقت بننے اور معاشی اعتبار سے سرمایہ داری کو ہڑپ کرلینے کے تعلق سے اس کی پیشین گوئی کی ہے۔ آج جب ہم چین کو دیکھتے ہیں تو محوِ حیرت ہوجاتے ہیں کہ اقبالؔ نے ۱۹۳۵ء میں یہ بات کیسے کہہ دی ۔ اقبال کی ہر اس بات کی تصدیق ہورہی ہے جو انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے دنیا والو ں کے سامنے منکشف کی ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمین میر وسلطان سے بیزار ہے
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دل طورِ سینا و فاراں دو نیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم
پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد ان فاتح ممالک نے ’’مجلس اقوام عالم‘‘ قائم کی تھی اس کا مقصد ایشیا کے دیگر ممالک کو غلام بنانا تھا، اسی پر اقبالؔ نے ۱۹۲۳ء میں اس مجلس پر نہایت عمدہ تبصرہ کیا تھا۔
من ازیں پیش ندانم کہ کفن دزداں چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
یعنی میں اس انجمن کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ یورپ کے کفن چوروں نے مل کر ایک انجمن بنائی ہے تاکہ وہ قبروں (ایشیا کی مردہ قوموں) کو آپس میں تقسیم کرسکیں۔ یہ نہایت بلیغ تبصرہ ہے۔
ایک شعر ملاحظہ ہو:
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم
دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد ان کفن چوروں نے ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کے نام سے ایک انجمن بنائی۔ اس انجمن کا مقصد اب تک یہ رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو استعمال کرکے صرف اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غریب اقوام پرمسلسل دباؤ ڈالنے کے لئے قرارداد پاس کرکے ان کے خلاف پابندیاں عائد کرتے رہتے ہیں اور جب ان پر خود ضرب پڑتی ہے تو ویٹو کا کھل کر استعمال کرتے ہیں۔ بیچارے مظلوم ممالک خاص طور سے ایران، شمالی کوریا، زمبابوے اور شام اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے اقوام متحدہ بھی شکست و ریخت کے مرحلہ سے گذررہی ہے اور دنیا تیسری جنگ کے قریب پہنچ چکی ہے۔
اقبالؔ نے ایشیائی قوموں کی کوتاہ بینی پر ماتم کیاہے جو مغربی تہذیب کو اپنے مرض کی دوا سمجھ کر بے سوچے سمجھے تقلید کررہی ہیں ان کے تعلق سے کہا ہے کہ جن لوگوں کی آنکھیں غلامی اور تقلید کی وجہ سے اندھی ہوگئی ہیں ان کو واضح حقائق بھی نظر نہیںآتے۔وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ مغربی تہذیب جو خود دم توڑ رہی ہے وہ دوسری قوموں کو کس طرح زندگی دے سکتی ہے ۔ انہو ں نے خاص طور سے آج کل کے ترکی، مصر، شام، ایران، عرب برصغیر کے تعلق سے یہ بات کہی ہے کہ یہ تمام ممالک مغربی ممالک کی اندھی نقالی کررہے ہیں اور اتنا بھی غوروفکر نہیں کرتے کہ اس تہذیب کی بنیاد لادینی فلسفہ پر ہے یہ تہذیب مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی۔ان کا مشورہ امت مسلمہ کے لئے یہ ہے کہ وہ اس مغربی تہذیب سے بالکل دور رہیں ۔ان کی اچھی چیزیں آپ بالکل لیں لیکن ان کی تہذیب کے رنگ میں رنگے بغیر۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان کی برائیوں کو ایشیائی اقوام خاص طور سے مسلمانوں نے اپنا لیا ہے لیکن ان کی جفاکشی اور کام کے تئیں انہماک کو بالکل نہیں قبول کیا جس کی وجہ سے یہ ایشیائی ممالک ہر شعبہ حیات میں پیچھے نظر آتے ہیں۔اس لئے انہوں نے امت مسلمہ کو مشورہ دیاکہ وہ ان کی اچھی چیزیں لیں اور ان کی بری باتوں کو ہرگز قبول نہ کریں۔ اشعار ملاحظہ ہو:
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکوم و تقلید سے کور
زندہ کرسکتی ہے ایران و عرب کو کیوں کر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
اقبالؔ کی یہ چھوٹی سی پیشین گوئی جو بال جبریل کی’’انقلاب‘‘ کے عنوان سے چھوٹی سی نظم میں پائی جاتی ہے جو تقریباً پوری ہونے ہی والی ہے۔یہ شعر ملاحظہ ہو:
نہ ایشیاء میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات
خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت
دلوں میں ولولہ انقلاب ہے پیدا
قریب آگہی شاید جہانِ پیر کی موت
ان اشعار میں اقبال نے ایشیا اور یورپ کے تعلق سے جو پیشین گوئی کی ہے وہ حرف بحرف کچھ تو سچ ہوچکی ہے اور کچھ ہونے والی ہے۔ علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں کہ زندگی کا سوزوساز نہ ایشیا میں کہیں موجود ہے نہ یورپ میں۔ انسان اپنی زندگی کا مقصد نہ ایشیا میں رہ کر حل کرسکتا ہے نہ یورپ میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایشیا میں تو غلامی کی وجہ سے لوگوں کی خودی مردہ ہوچکی ہے اور یورپ میں لادینی اور اشتراکیت کی بدولت ضمیر فنا ہوچکا ہے۔ ان حالات میں اقبال نے پیش گوئی کردی کہ جلد ہی ان یورپی ممالک کی فکری اور عسکری اور معاشی سطح پر موت ہونے والی ہے چنانچہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ کو زبردست دھچکا لگا اوربرطانیہ کا سورج تمام ممالک میں ڈوب گیا اور وہ صرف ایک محدود علاقہ میں سکڑ گیا جہاں سے اس نے شروعات کی تھی۔ نوے کی دہائی میں روس بھی ٹوٹ پھوٹ کر بکھرگیا ۔ اب صاف نظر آتا ہے کہ امریکہ اور باقی ماندہ یورپ کی باری ہے ۔ امریکہ اس وقت فکری، معاشی اور عسکری سطح پر زبردست پستی سے دوچار ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے حوارین ایران اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں جلد ہی شکست و ریخت سے دوچار ہونے والے ہیں ۔ اقبال کی پیشین گوئی سچ ثابت ہونے والی ہے۔ اقبالؔ نے اسی بال جبریل میں ’’جمعیت اقوامِ مشرق‘‘ کے عنوان سے ایران کے سپرپاوربننے کی پیشین گوئی کی ہے ۔ وہ اشعار ملاحظہ ہوں:
پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہِ فلک پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
ان اشعار میں یورپ، امریکہ اور روس کے تعلق سے اقبال نے پیشین گوئی کی کہ مغربی اقوام نے سائنس میں بڑی ترقی کرلی ہے اور انسانو ں کے علاوہ آج عناصر فطرت بھی ان کے محکوم ہیں لیکن اگر ’فلکِ پیر‘ یعنی خالق کی نگاہ بدل جائے تو ان تمام اقوام کی سطوت و شوکت کا ایک آن میں خاتمہ ہوسکتا ہے۔ان اقوام نے مختلف حیلوں سے ایشیائی قوموں کو غلام بنانے کا جو منصوبہ بنارکھا ہے وہ سب یوں ہی دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اگر تمام مسلمانانِ عالم متحد ہوجائیں تو اللہ کی نصرت ان کے ساتھ ہوگی اور تہران کی قیادت میں انشا ء اللہ فتح حاصل ہوگی اور یورپ اور امریکہ کی تمام طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گی۔ ایران ایک سپرپاور کی حیثیت سے اس دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہوجائے گا اور ایک زمانے میں یورپ کی طاقت کا محور جو جنیوا کو حاصل تھا وہ اب تہران کو حاصل ہوجائے گا۔ اب ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس وقت ایران کی قیادت میں ایک متوقع جنگ ہونے والی ہے اس جنگ میں ایران کے اتحادیوں میں شام، لبنان اور فلسطین ہوں گے وہ یورپ کی متحدہ قوت اورامریکہ اور اسرائیل کو شکست سے دوچار کرکے اس منصب پر فائز رہنے کی اپنی اہلیت کو ثابت کردیں گے اور اس کے بعد اقبالؔ کی پیشین گوئی اپنے اتمام کو پہنچ جائے گی۔ اس وقت ایران سائنس کے تمام شعبوں اور عسکری محاذ پر بلکہ بعض شعبوں میں چوٹی پر ہے۔
امام خمینی کی قیادت میں ایران میں ۱۹۷۹ء میں انقلاب آیا اوراس وقت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں وہ تیزی سے ترقی کی شاہراہ کی طرف گامزن ہے ۔ یہ تاریخ میں عدیم المثال واقعہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد پہلی مرتبہ علماء کسی ملک کے حکمراں ہیں۔ یہ وہ نعمت ہمارے لئے ہے کہ ایران اس وقت بام عروج پر پہنچ رہا ہے وہ اس لئے خدا کے نزدیک علم جب تقوی سے وابستہ ہو تبھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے نہیں تو ابلیس اسے اپنی راہ سے بھٹکا دیتاہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جن اسماء کا علم دیا گیا اہل ایران ان اسماء کاانکشاف کرکے جب اس دنیا میں حقیقی وارث ہونے کا حق ادا کریں گے تب انسانیت اپنے کمال کو پہنچ جائے گی اور بشریت کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔
حضرت علامہ اقبالؔ حقیقی معنوں میں الشاعر تلمیذ الرحمان کے مصداق تھے۔ وہ نابغہ روزگار، متبحر عالم اور اپنے عہد کے عظیم فلسفی تھے ۔ اللہ نے ان کو ایک ایسے وجدان سے نوازا تھا جو ایک حدیث کے مطابق ایک نبی کے بعد کسی عام آدمی کو جو بشریت کے اعلی مقام پرفائز ہوجائے ودیعت کیا جاتا ہے جو ایک نبی کے وجدان کا چالیسواں حصہ ہوتا ہے، یہ وجدان اقبال جیسی مستقبل بیں شخصیت کو عطا ہوا تھا۔ چنانچہ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک واقعہ جو عالمی سطح پر رونما ہونے والا ہے اس کی پیشین گوئی انہو ں نے بہت پہلے کردی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز قائم ہوئی جو موجودہ اقوام متحدہ کے طرح کا ایک ادارہ تھا۔ اس کے ختم ہونے کی پیشین گوئی علامہ اقبال نے کردی علامہ کی عالمی واقعات پر گہری او رباریک بیں نظر تھی وہ ہر واقعہ پر گہری بصیرت رکھتے تھے انہو ں نے اپنے ان خیالات کو’’جمعیت اقوام‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں ظاہر کیا ہے۔ وہ نظم ملاحظہ ہو:
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبر بد نہ مرے منھ سے نکل جائے
تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن
پیرانِ کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرکِ افرنگ
ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
یہ پیشین گوئی علامہ اقبال نے اپنی وفات سے تقریباً دو سال پہلے کردی تھی اور یہ دوسری عالمی جنگ جو جمعیت اقوام کے خاتمے کا باعث ہوئی ان کی وفات کے تقریباً ایک سال بعد شروع ہوئی جو ۱۹۴۵ء تک چلتی رہی۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل ہوئی ۔اب دیکھئے اقوام متحدہ کا خاتمہ کب ہوتا ہے اور ایک نئی تنظیم اور ایک نیا عالم نو کب وجود میں آتا ہے۔
سیاسی اور تاریخی حالات پر گہری نظر ان کے تجزیہ کی غیر معمولی صلاحیت اور ان کے حوالہ سے مستقبل میں جھانکنے کی جو غیر معمولی صلاحیت اقبال کو ودیعت ہوئی تھی وہ ہمیں ان کے کلام میں ہر جگہ نظر آتی ہے چنانچہ جب ہم عالم اسلام پر نظر ڈالتے ہیں خواہ وہ ایران ، خواہ وہ فلسطینی عرب ،خواہ افغانستان ہو خواہ کشمیر ہو، ان تمام اقوام کے تعلق سے انہو ں نے جو پیشین گوئی کی ہے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسّی نوے سال گذرنے کے بعد بالکل پوری ہونے جارہی ہے اور مسجد قرطبہ کے آخری دو بندوں میں یورپ کی تاریخ کے تجزیہ کے بعد روح مسلمان میں جس اضطراب کے کروٹیں لینے کا ذکرتھا وہ اب صاف نظر آرہا ہے۔ سب سے پہلے ہم ایران کو لیتے ہیں اقبالؔ نے ’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’جمعیت اقوام مشرق‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم لکھی ہے جس میں انہوں نے پیشین گوئی کی ہے کہ طہران اگر عالم مشرق کا جنیوا ہوجائے تو شاید مشرق کی تقدیر بدل جائے ۔ جب اس مختصر پیشین گوئی کو موجودہ زمانے کیتناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پیشین گوئی صد فیصد درست ہونے جارہی ہے۔ ایران آج فکری، سائنسی، عسکری ، معاشی طور سے ایک طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ایران جس کے تعلق سے اقبال کے عہد میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اوروہ ایران جس کو ۱۹۰۷ء میں روس اور برطانیہ نے ایک خفیہ معاہدہ کے تحت آپس میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا۔ آج اسی ایران میں ایک سے ایک بڑھ کر عبقری شخصیت موجود ہے۔ وہ تیزی کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب اقبال ؔ کی تہران کے مشرق کا جنیوا بننے کی پیشین گوئی بھی صحیح ثابت ہوکر رہے گی۔
اسی طرح اقبال نے ضرب کلیم کی نظم ’’فلسطینی عرب سے‘‘ میں فلسطینی کے کرب کو محسوس کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ تیری دوا نہ تو جنیوا میں ہے نہ لندن میں ہے بلکہ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ فرنگی جس کو تو اپنے درد کا درماں سمجھتا ہے درحقیقت وہ یہودی کے پنجے میں پھڑپھڑا رہا ہے جو خود بے بس ہو وہ تمہاری کیا مدد کرسکتا ہے۔ اگر تجھ کو اپنی مدد کرنی ہے تواپنی خودی کو فولاد بنادے تب ہی تو کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ جب ہم آج کے فلسطین پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے فلسطینیوں کو جو نصیحت کی ہے وہ قوم ان کی نصیحت پر پوری طرح سے دلجمعی سے کاربند ہے۔
حالیہ عرصوں میں لڑی جانے والی فلسطین اور اسرائیل کی جنگیں جو ۲۰۰۹، ۲۰۱۲ اور ۲۰۱۴ میں لڑی گئی گئی، جس میں فلسطینیوں نے اسرائیل پر اپنی برتری کو ثابت کردیا ہے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اقبال کی دعائیں بارگاہ ایزدگی میں مستجاب ہوئی ہیں۔
اسی طرح جب ہم افغانستان پر نظرڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جس قوم کو برطانیہ، روس اور اب امریکہ اور اس کے حلیف ناٹو ممالک زیر کرنے کی بے جاکوشش کررہے تھے وہ اپنی خود پہچان رہی ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور ناٹو اس طویل جگہ سے پریشان ہوگئے ہیں۔ اس قوم کے تعلق سے اقبالؔ نے اپنی آخری کتاب ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے عنوان سے جو پیشین گوئی کی ہے وہ بالکل صحیح ثابت ہورہی ہے۔
اسی طرح جب کشمیر کا ذکر آتا ہے جس سے خود اقبالؔ کا تعلق ہے تو ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔انہوں نے ارمغان حجاز میں ’’ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ کے عنوان سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ انہوں نے اپنادل چیر کر رکھ دیا ہے۔  اگر کشمیری قوم اقبال کے دیئے گئے پیغام پر عملدرآمد کرے تو یقینا کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔ اقبال نے کشمیر کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
اسی طرح اقبالؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے چھوٹے بڑے بہت سارے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے سیاسی شعور کی بدولت ایسی پیشین گوئیاں کی ہے اور جو اتنے برسوں کے بعد آج کے عہد میں بالکل سچ ثابت ہونے والی ہیں۔اسی طرح اقبال نے اس عہد کی مختلف مذہبی و سیاسی شخصیتوں پر جو تبصرے کئے ہیں وہ بھی برحق لگتے ہیں اوریہ ان کے سیاسی درک، تاریخی شعور اور گہری بصیرت کا ثبوت ہے اور یہ وہ خصوصیات ہیں جو اقبالؔ کو ایسا مفکر شاعر بناتی ہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
***
فون:9958361526

No comments:

Post a Comment