چینی مسلم اکثریتی علاقے سے تعلق سے کچھ مشورے
چینی مسلم
اکثریتی علاقے سنکیانگ کے تعلق سے اس طرح کی خبریں موصول ہونے
شروع ہوئی ہیں کہ وہاں کی حکومت وہاں کے مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھارہی ہے
اور وہاں کے لوگوں کو روزہ و نماز پڑھنے سے منع کرتی ہے ،خاص طور سے سرکاری
ملازموں اور طالب علموں کو جن کی عمر ۱۸سال تک ہے اس پر جبر کرتی ہے کہ وہ
رمضان کے روزے نے رکھیں۔ چین کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے ان کی صحت
متاثرہوتی ہے اور کام متاثر ہوتا ہے۔یہ تمام خبریں برطانوی خبررساں ایجنسی
رائٹر کے حوالے سے آرہی ہیں۔
واضح رہے کہ چین ایک کمیونسٹ ملک ہے جس میں مذہبی جبر تمام مذاہبوں کے لئے ہے، لیکن اب اس میں کافی نرمی برتی جارہی ہے۔ چین جس طرح معاشی اور عسکری طور پر ابھر کر دنیا کے سامنے آگیا ہے اسی طرح وہاں مذہبی نرمی میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔رائٹر کی جانب سے جاری کئے گئے اس طرح کی خبروں میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے۔لیکن مکمل صداقت ہرگز نہیں ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے جن سے امریکہ اور یوروپ کا ٹکراؤ عملا شروع ہوچکا ہے۔ ابھی تازہ معاملے کو مدنظر رکھیں تو بات زیادہ سمجھ میں آتی ہے کہ ساؤتھ چائنا سمندر میں چین نے ایک مصنوعی جزیرہ بنالیا ہے اور اس جزیرہ کو فوجی اعتبار سے بڑھاوا دے رہاے ہے، جس سے امریکہ جو جاپان کا اتحادی ہے زبردست دباؤ میں ہے۔ اس طرح دوسری جانب مغرب روس سے پریشان ہے، روس پھر خم ٹھونک کر میدان میں آچکاہے، دراصل چین کے تعلق سے اس طرح کی افواہیں پھیلانے کا اصل مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ چین اور عالم اسلام باہم متصادم ہوجائیں تاکہ چین اور عالم اسلام میں جو قربت پیداہورہی ہے اس میں شک وشبہ پیدا ہوجائے، عالم اسلام اگر چین سے متصادم ہوتا ہے تو اس میں عالم اسلام کو ہی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے اور امریکہ اور مغرب کو اس سے فائدہ ہوگا اور عالم اسلام اس وقت جس جنگ سے گذررہا ہے ان حالات میں ایک نیا محاذ کھولنا نہایت ہی احمقانہ بات ہوگی چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے جو تقریبا دو سو سے تین سو برسوں تک اس دنیا کی عظیم طاقت بنی رہے گی۔ چین سے ٹکرانا اس سے اپنا سر پھوڑنا کے متراداف ہوگا۔ اس لئے عالم اسلام سے گذارش ہے کہ وہ اس مغرب سے درآمد پروپیگنڈہ سے متاثر نہ ہوں۔ چین سے مل بیٹھ کر اس سلسلے میں باہم مذاکرات کرسکتے ہیں۔ اس سے کچھ نہ کچھ حل ضرور نکلے گا۔ تصادم سے دونوں فریق کا نقصان ہی ہوگا اور عالم اسلام کے دشمنوں کو اس سے فائدہ ہوگا۔واضح رہے کہ فی الحال سنکیانگ کی راجدھانی کاشغر سے تقریبا روزانہ ہی بسیں پاکستانی مقبوضہ کشمیر آتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا عالم اسلام سے رابطہ برقرار ہے۔
واضح رہے کہ چین ایک کمیونسٹ ملک ہے جس میں مذہبی جبر تمام مذاہبوں کے لئے ہے، لیکن اب اس میں کافی نرمی برتی جارہی ہے۔ چین جس طرح معاشی اور عسکری طور پر ابھر کر دنیا کے سامنے آگیا ہے اسی طرح وہاں مذہبی نرمی میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔رائٹر کی جانب سے جاری کئے گئے اس طرح کی خبروں میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے۔لیکن مکمل صداقت ہرگز نہیں ہے۔ اس کی وجہ بھی ہے چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے جن سے امریکہ اور یوروپ کا ٹکراؤ عملا شروع ہوچکا ہے۔ ابھی تازہ معاملے کو مدنظر رکھیں تو بات زیادہ سمجھ میں آتی ہے کہ ساؤتھ چائنا سمندر میں چین نے ایک مصنوعی جزیرہ بنالیا ہے اور اس جزیرہ کو فوجی اعتبار سے بڑھاوا دے رہاے ہے، جس سے امریکہ جو جاپان کا اتحادی ہے زبردست دباؤ میں ہے۔ اس طرح دوسری جانب مغرب روس سے پریشان ہے، روس پھر خم ٹھونک کر میدان میں آچکاہے، دراصل چین کے تعلق سے اس طرح کی افواہیں پھیلانے کا اصل مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ چین اور عالم اسلام باہم متصادم ہوجائیں تاکہ چین اور عالم اسلام میں جو قربت پیداہورہی ہے اس میں شک وشبہ پیدا ہوجائے، عالم اسلام اگر چین سے متصادم ہوتا ہے تو اس میں عالم اسلام کو ہی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے اور امریکہ اور مغرب کو اس سے فائدہ ہوگا اور عالم اسلام اس وقت جس جنگ سے گذررہا ہے ان حالات میں ایک نیا محاذ کھولنا نہایت ہی احمقانہ بات ہوگی چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے جو تقریبا دو سو سے تین سو برسوں تک اس دنیا کی عظیم طاقت بنی رہے گی۔ چین سے ٹکرانا اس سے اپنا سر پھوڑنا کے متراداف ہوگا۔ اس لئے عالم اسلام سے گذارش ہے کہ وہ اس مغرب سے درآمد پروپیگنڈہ سے متاثر نہ ہوں۔ چین سے مل بیٹھ کر اس سلسلے میں باہم مذاکرات کرسکتے ہیں۔ اس سے کچھ نہ کچھ حل ضرور نکلے گا۔ تصادم سے دونوں فریق کا نقصان ہی ہوگا اور عالم اسلام کے دشمنوں کو اس سے فائدہ ہوگا۔واضح رہے کہ فی الحال سنکیانگ کی راجدھانی کاشغر سے تقریبا روزانہ ہی بسیں پاکستانی مقبوضہ کشمیر آتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا عالم اسلام سے رابطہ برقرار ہے۔
حالیہ دنوں چین کے صدر زن جنپنگ نے کاشغر میں ایک مسجد کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے مسلمانوں سے ملاقات کی تھی۔ جو ایک مثبت پہل ہے, چند مہینے پہلے جماعت اسلامی پاکستان کا ایک وفد کاشغر کے دورے پر گیا تھا اس نے بھی مشاہدہ کیا تھا کہ وہاں کسی بھی طرح کا جبر نہیں ہے محض چین کے خلاف پروپیگنڈہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
No comments:
Post a Comment