Monday, 22 August 2016

عالم اسلام کے عروج کا راستہ تہران سے ہوکر گذرتا ہے

عالم اسلام کے عروج کا راستہ تہران سے ہوکر گذرتا ہے

muslim_world_tehran_climax#

از:ظفر اقبال

ایران کے ولایت فقیہ اور سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای کا 10ستمبر2015 کو یہ اعلان کرنا کہ اسرائیل بحیثیت ملک آئندہ پچیس برسوں کے اندر ختم ہوجائے گا۔اس بات کا مظہر ہے کہ ایران نے ایک غیر معمولی فیصلہ کرلیا ہے۔ان کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ میں اس بات کی ووٹنگ ہونی ہے کہ ایران سے ایٹمی معاہدہ پر امریکہ دستخط کرے یا نہیں۔ اس معاہد ہ کی اسرائیل لابی زبردست مخالفت کررہی ہے اور اس مخالفت میں ان کی ہمنوائی گلف تعاون کونسل کے ممبران بھی کررہے ہیں۔ وہ تمام لوگ ہرگز ایسا نہیں چاہتے ہیں کہ امریکہ اس ڈیل کو حتمی شکل دے ۔
آیت اللہ خامنہ ای کے اس اعلان کے بعد اب ساری طاقتیں جو ایران کی حامی ہیں اب ان تمام طاقتوں کی مشترکہ کوشش ہوگی کہ ہر حالت میں اسرائیل کو دھیرے دھیرے کمزور کیاجائے اور بالآخر ان کی کوششوں کی وجہ سے اسرائیل کا مکمل انہدام ہوجائے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے اس اعلان میں ایک بات اور تھی کہ امریکہ سے صرف ایٹمی موضوع پر ہی بات ہوگی اس کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوگی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہرحالت میں اسرائیل کی سیکورٹی کی ضمانت دی جائے اور عربوں کو ایران کے تعلق سے جو خوف ہے امریکہ اس موضوع پر بھی ایران سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن ایران نے مکمل طور سے اس بات کو مسترد کردیا ہے کہ ایٹمی موضوع کے علاہ کسی موضوع پر امریکہ سے بات نہیں ہوگی۔ ایران طے کرے گا کہ ان کے پڑوسی کے ساتھ کیسے تعلقات ہوں اور اسرائیل کے ساتھ وہ کیا معاملہ کرتا ہے یہ اسے کسی تیسرے ملک امریکہ یا کسی دوسرے ملک سے ڈکٹیشن لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
آیت اللہ خامنہ کے اس اعلان کے بعد کہ اسرائیل آئندہ پچیس برسوں میں بحیثیت اسٹیٹ ختم ہوجائے گا۔ امریکہ ایک نئے بحران سے دوچار ہوگیا ہے۔ اگر ایران کا امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ کو اسرائیل کی حفاظت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کو ہم اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہودیوں نے جو امریکہ کو یرغمال بنارکھا ہے اس سے اب امریکہ آزاد ہوگیا ہے۔
خود صدر امریکہ بارک حسین اوبامہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ امریکہ مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ عسکری اورمعاشی طو ر پر تیزی کے ساتھ زوال کی طرف گامزن ہے۔
یمن کی صورت حال نے امریکہ کواور زیادہ خوفزدہ کردیا ہے ۔یمنی جو نرم دل اور نرم خوں ہیں ان کے خلاف امریکہ کے حلیف ممالک امریکی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں لیکن جو جنگ چھٹے مہینے میں داخل ہوچکی ہے، امریکہ اور اس کے حلیف عرب ممالک کوئی بھی ہدف حاصل کرنے سے کوسوں دور ہیں۔ یعنی منصور ہادی کی حکومت کی بحالی اور حوثیوں کی صنعا سے پسپائی اور شکست۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی ہتھیار کس قدر ناکارہ ثابت ہورہے ہیں اور یمنیوں کی ثابت قدمی نے اس بات کو صحیح ثابت کردیا ہے کہ ان کے حریف اچھی پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں۔
حالیہ دنوں نیوز۔18 (اردو) میں شائع آن لائن اسٹوری جس میں ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نے حال میں اسرائیل اور ایران کا دورہ کیا ہے ، اسرائیل سے مختلف دفاعی شعبوں میں ہندوستان معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور ایران کے چاہ بہار پورٹ میں انویسٹ کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک اسرائیل اور ایران ایک دوسرے کے کٹر دشمن ہیں۔ ایسے میں ہندوستان کے لئے ایک چیلنج ہے کہ ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنے میں کس طرح توازن رکھا جائے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم کی جائے یعنی اسرائیل اسٹیٹ اور فلسطین اسٹیٹ دونوں ممالک کی تشکیل کی جائے ، لیکن اسرائیل اصولی طور پر تو مانتا ہے کہ ایک آزاد فلسطین اسٹیٹ قائم ہو لیکن عملا وہ نہیں چاہتا کہ آزاد فلسطین اسٹیٹ قائم ہو، اسی طرح فلسطین میں محمود عباس گروپ دو قومی نظریے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن فلسطین کا ایک دوسرا گروپ حماس جو غزہ میں برسراقتدار ہیں اس دو قومی نظریے کو مسترد کرتے ہیں، حماس چاہتا ہے کہ فلسطین میں صرف ایک اسٹیٹ قائم ہو وہ اسٹیٹ فلسطین ہو۔ وہ اسرائیل کا بحیثیت اسٹیٹ انکاری ہے۔ یعنی حماس دو قومی نظریے کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔
ہم ہندوستانی جو دو قومی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اسی دو قومی نظریے کی وجہ سے پاکستان کی تشکیل ہوئی تھی۔ ہندوستان کے لوگ دوقومی نظریے سے ویسے بھی خائف رہتے ہیں۔ فلسطین کی حد تک ایران اور حماس اور حزب اللہ دو قومی نظریے کو پوری طرح مسترد کرتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان فلسطین کے تعلق سے ایران اور حماس اور حزب اللہ کے نظریہ سے کافی قریب ہے۔
اب جب کہ آیت اللہ خامنہ ای کا اعلان آگیا ہے کہ اسرائیل پچیس برسوں میں بحیثیت اسٹیٹ ختم ہوجائے گا۔ تو ہماری حکومت یعنی ہندوستان کی حکومت کو اسرائیل کے ساتھ کس طرح کا تعلق رکھنا چاہئے ،وہ ایک اہم بات ہوگی۔مستقبل میں ایک اسٹیٹ ہوگا جو فلسطین ہوگا، اگر ہندوستان اسرائیل سے طویل مدتی معاہدہ کرتا ہے تو کیا جب اسرائیل بحیثیت اسٹیٹ نہیں رہے گا تو کیا وہ فلسطین کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاہدہ رکھنا چاہے گا۔یہ چیز ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ہماری رائے ہے کہ ہندوستان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ طویل مدتی کوئی معاہدہ نہ کرے، اگر ہندوستان کی حکومت طویل مدتی معاہدہ کرتی ہے تو اس کے نتائج یقیناًمایوس کن ہوں گے۔
میں نے اپنی کتاب ’’اقبال کے سیاسی افکار ‘‘جو ایم فل کا مقالہ ہے، وہ 2013میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے، اس میں اقبال کے اشعار کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے ایران کے تعلق سے اور موجودہ حالات کے تعلق سے سن 2012میں جو لکھا تھا اس کے چند اقتباسات قارئیں کی نظر ہیں، ملاحظہ ہو:’’
نہ ایشیاء میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات
خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت
دلوں میں ولولہ انقلاب ہے پیدا
قریب آگہی شاید جہانِ پیر کی موت
ان اشعار میں اقبال نے ایشیا اور یورپ کے تعلق سے جو پیشین گوئی کی ہے وہ حرف بحرف کچھ تو سچ ہوچکی ہے اور کچھ ہونے والی ہے۔ علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں کہ زندگی کا سوزوساز نہ ایشیا میں کہیں موجود ہے نہ یورپ میں۔ انسان اپنی زندگی کا مقصد نہ ایشیا میں رہ کر حل کرسکتا ہے نہ یورپ میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایشیا میں تو غلامی کی وجہ سے لوگوں کی خودی مردہ ہوچکی ہے اور یورپ میں لادینی اور اشتراکیت کی بدولت ضمیر فنا ہوچکا ہے۔ ان حالات میں اقبال نے پیش گوئی کردی کہ جلد ہی ان یورپی ممالک کی فکری اور عسکری اور معاشی سطح پر موت ہونے والی ہے چنانچہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ کو زبردست دھچکا لگا اوربرطانیہ کا سورج تمام ممالک میں ڈوب گیا اور وہ صرف ایک محدود علاقہ میں سکڑ گیا جہاں سے اس نے شروعات کی تھی۔ نوے کی دہائی میں روس بھی ٹوٹ پھوٹ کر بکھرگیا ۔ اب صاف نظر آتا ہے کہ امریکہ اور باقی ماندہ یورپ کی باری ہے ۔ امریکہ اس وقت فکری، معاشی اور عسکری سطح پر زبردست پستی سے دوچار ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے حوارین ایران اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں جلد ہی شکست و ریخت سے دوچار ہونے والے ہیں ۔ اقبال کی پیشین گوئی سچ ثابت ہونے والی ہے۔ اقبالؔ نے اسی بال جبریل میں ’’جمعیت اقوامِ مشرق‘‘ کے عنوان سے ایران کے سپرپاوربننے کی پیشین گوئی کی ہے ۔ وہ اشعار ملاحظہ ہوں:
پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہِ فلک پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
ان اشعار میں یورپ، امریکہ اور روس کے تعلق سے اقبال نے پیشین گوئی کی کہ مغربی اقوام نے سائنس میں بڑی ترقی کرلی ہے اور انسانو ں کے علاوہ آج عناصر فطرت بھی ان کے محکوم ہیں لیکن اگر ’فلکِ پیر‘ یعنی خالق کی نگاہ بدل جائے تو ان تمام اقوام کی سطوت و شوکت کا ایک آن میں خاتمہ ہوسکتا ہے۔ان اقوام نے مختلف حیلوں سے ایشیائی قوموں کو غلام بنانے کا جو منصوبہ بنارکھا ہے وہ سب یوں ہی دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اگر تمام مسلمانانِ عالم متحد ہوجائیں تو اللہ کی نصرت ان کے ساتھ ہوگی اور تہران کی قیادت میں انشا ء اللہ فتح حاصل ہوگی اور یورپ اور امریکہ کی تمام طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گی۔ ایران ایک سپرپاور کی حیثیت سے اس دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہوجائے گا اور ایک زمانے میں یورپ کی طاقت کا محور جو جنیوا کو حاصل تھا وہ اب تہران کو حاصل ہوجائے گا۔ اب ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس وقت ایران کی قیادت میں ایک متوقع جنگ ہونے والی ہے اس جنگ میں ایران کے اتحادیوں میں شام، لبنان اور فلسطین ہوں گے وہ یورپ کی متحدہ قوت اورامریکہ اور اسرائیل کو شکست سے دوچار کرکے اس منصب پر فائز رہنے کی اپنی اہلیت کو ثابت کردیں گے اور اس کے بعد اقبالؔ کی پیشین گوئی اپنے اتمام کو پہنچ جائے گی۔ اس وقت ایران سائنس کے تمام شعبوں اور عسکری محاذ پر بلکہ بعض شعبوں میں چوٹی پر ہے۔‘‘
اب جبکہ ایران اور ان کے حلیفوں سے اسرائیل اور امریکہ کی جنگ کے امکانات کی سطح کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ اگر ایران سے اسرائیل اور امریکہ کا تصادم ہوجاتا تو یقیناًاس جنگ کے نتائج ہمارے دیئے گئے اقتباسات میں جو بات کہی ہے اس سے مختلف یقیناًنہ ہوتی۔
اب میں جب آیت اللہ خامنہ ای کے اعلان پر غور کرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کے وجود کی دنیا میں اب کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا، اب اس کو جانا ہی ہوگا۔ اسرائیل کے وجود کو مغرب کا نہ بچاپانا مغرب کی ناکامی کی دلیل ہوگی۔مغرب اس طرح ایران سے شکست سے دوچار ہوجائے گا۔
فون:9958361526

No comments:

Post a Comment