Tuesday, 23 August 2016

قانون کی جیت ہوئی جمہوریت ہار گئی

قانون کی جیت ہوئی جمہوریت ہار گئی

#Democaracy_in_Delhi_Governor#

پانچ اگست2016  کو دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ آیا کہ دہلی کا باس لفٹننٹ گورنر ہے۔ میرا مقصد دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کرنا نہیں ہے، نہ میں کورٹ کے فیصلے کو مسترد کررہا ہوں۔دہلی ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا وہ آئین کے تحت تھا۔ اب رہا کہ آئین کو کون لوگ بناتے ہیں۔ آئین پارلیمنٹ بناتی ہے ۔ ہندوستانی آئین کوئی آفاقی آئین تو نہیں ہے جس میں کوئی ترمیم نہیں ہوسکے۔ ہندوستانی آئین کو بنانے والے انسان ہی تھے اور اس میں وقتا فوقتا ترمیم بھی ہوتی رہی ہے اور نئے قوانین بھی بنتے رہے ہیں۔
میرا مقصد یہ ہے کہ پانچ اگست کو دہلی ہائی کورٹ کا جو فیصلہ آیا اس سے جمہوریت کا کیا نقصان ہوا؟ اس فیصلے سے عوام کو کس قدر پریشانی ہوئی اور ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی برسراقتدار ہے لیکن اب دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کی حیثیت کیا رہ گئی ہے ؟ عام آدمی پارٹی ایک نئی پارٹی ہے جو انا ہزارے تحریک کے بطن سے نکلی ہے۔ کوئی نئی پارٹی بنتی ہے تو اس کے ساتھ بہت سارے وعدے اور امنگیں ہوتی ہیں، جو وہ کرناچاہتی ہے۔میں دہلی میں 1995 سے ہوں، میں نے صاحب سنگھ ورما (بی جے پی) اور شیلادکشت کی پندرہ سالہ دور حکومت کو دیکھا ہے اور اب عام آدمی پارٹی کی بظاہر دہلی میں حکومت ہے۔ شیلادکشت حکومت کا پہلا دور دہلی میں تھا اور مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت برسراقتدار تھی۔ لیکن اس وقت کے لفٹننٹ گورنر اور کانگریس کی حکومت کے درمیان بظاہر کوئی نوک جھونک نہیں ہوئی۔ شیلا دکشت بغیر کسی پریشانی کے حکومت کرتی رہیں۔ لفٹننٹ گورنر نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا ہے دہلی کا میں باس ہوں اور شیلا دکشت باس نہیں ہے۔لیکن پچھلے سال جب عام آدمی پارٹی دہلی میں لیند سلائڈ ووٹ کے ذریعہ برسراقتدار آئی۔ عام آدمی پارٹی کو دہلی کے عوام نے اپنی خواہش کی تکمیل اور عوام کی امنگوں کی تکمیل کے لئے برسراقتدار لایا۔ عوام نے بھاری رائے دہندگی کے ذریعے عام آدمی پارٹی کو دہلی میں حکومت کے لئے چنا۔لیکن آئین یہ کہتا کہ دہلی کا اصل باس لفٹننٹ گورنر ہے۔ دہلی حکومت جو ایک عوام کی چنی ہوئی حکومت ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اسمبلی کوئی بھی اجتماعی فیصلہ لے گی اس کو لفٹننٹ گورنر چاہے قبول کرسکتا ہے یا مسترد کرسکتا ہے۔ وہ لفٹننٹ گورنر کی صوابدید پر ہے۔ کیا ہمیں اور آپ کو اور کانگریس اور بی جے پی اور دیگر پارٹی کو ایسا نہیں لگتا کہ عوام نے جس کو چنا ہے وہ فیصلے نہ لے سکے کیایہ عوام کی توہین نہیں ہے؟ عوام کے فیصلے کی توہین نہیں ہے؟ دہلی کی عوام نے لفٹننٹ گورنر کو نہیں چنا ہے بلکہ اروند کیجری وال کو چنا ہے۔ کیا سینٹرل گورنمنٹ اور اپوزیشن اس قانون کو کیوں نہیں بدل دے جس سے عوام کے دکھوں کا مداوا ہوسکے ۔اب عوام کدھر جائے۔


No comments:

Post a Comment