Tuesday, 23 August 2016

خلیجی ممالک کو ایران سے ڈر کیوں لگتا ہے؟

خلیجی ممالک کو ایران سے ڈر کیوں لگتا ہے؟

#Gulf_states_fear_Iran

از: ظفر اقبال

گزشتہ برس جی سی سی (گلف تعاون کونسل)کے چھ ممبرممالک جن میں سعودی عرب، قطر،بحرین،یو اے ای، کویت اور سلطنت عمان کی میٹنگ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ہوئی ۔ ان تمام خلیجی عرب ممالک کو ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممالک پلس جرمنی کے درمیان ہوئے معاہدے پر سخت تشویش ہے۔ ان ممالک کو لگتا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ ہوئے اس معاہدے کو امریکی کانگریس پاس کردیتی ہے تو اس سے ایران اپنے پڑوسی عرب ممالک کے لئے مسائل میں اضافہ کرے گا اور توسیع پسندانہ رویہ اختیار کرے گا۔ لیکن ایران کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود ان عرب ممالک کو اب بھی یقین نہیں ہورہا ہے کہ ایسا ہی ہوگا اوریہ ممالک امریکہ سے گارنٹی مانگ رہے ہیں کہ ایران کی جانب سے مستقبل میں کسی بھی طرح کی جارحیت ہوتی ہے تو امریکہ اس کی ہر حالت میں مدد کرے گا۔ امریکہ بھی اسے بار بار یقین دلاچکا ہے کہ میں ہر حالت میں تمہاری سیکورٹی کی ذمہ داری نبھاؤں گا۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام سنی عرب ممالک امریکہ کے سایہ عاطفت میں رہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔ انہیں شیعہ ایران کے طاقت ور ہوکر ابھرنے سے سخت پریشانی لاحق ہے۔ان عرب ممالک کی پریشان اپنی جگہ صحیح ہے ۔ ان کو پریشان ہونا ہی چاہئے۔ ان عرب ممالک نے جو جرائم کئے ہیں۔ مجرموں کو اس بات کا زیادہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے جرم کی سزا ایک نہ ایک دن ضرور ملے گی چاہے ان کو عوام دے یا کوئی اورطاقت ۔
ان عرب ممالک نے جو جرائم کئے ہیں وہ بھی سنئے، جب ایران میں امام خمینی (رح)کی قیادت میں ایرانی انقلاب برپا ہوا توامریکہ کو تو سب سے زیادہ پریشان ہوئی وہ تو برحق ہے لیکن امریکہ سے بھی زیادہ پریشان ان عرب کے بادشاہوں کو ہوئی ۔ ان عرب ممالک کے بادشاہوں نے سازش کے تحت عراق کو اکسایا اور لالچ دے کر ایران پر حملہ کروادیا جس سے ایران کا انقلاب جہاں سے شروع ہوا ہے وہیں ختم ہوجائے۔یہ جنگ تقریبا آٹھ برسوں تک چلتی رہی ،اس جنگ میں ایرانیوں کو کافی جانی و مالی نقصان کا اٹھانا پڑا۔ بالآخر ۱۹۸۸ میں اقوام متحدہ کی ثالٹ میں ہوئے معاہدے کے بعد یہ جنگ ختم ہوگئی۔جس جنگ میں لاکھوں ایرانی مارے گئے۔ ان عرب ممالک سے شدید تکلیف تو ایران کو ہوگی ، یہ تکلیف ہمیشہ ہی رہے گی۔ دس لاکھ ایرانیوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی ہیں۔ جب عراق نے اپنی ناعاقبت اندیشی کے باعث اس نے کویت پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا تو عراق کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے امریکی فوج کی مدد حاصل کی گئی۔ امریکہ شدید بمباری اور تباہی سے دوچار کردینے والے ہتھیاروں سے عراق کو بے دست و پا کردیا ۔ بالآخر ۲۰۰۳ میں عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت چلی گئی۔ عراق میں اکثریتی شیعہ آبادی کے باعث جب شیعہ حکومت برسراقتدار آئی تو ان عرب ممالک کو سخت تشویش ہوئی کہ عراق تو شیعہ ملک ہوگیا، جمہوریت کے زمانے میں ایسا ہونا ہی تھا۔ شیعہ مسلک ہونے کی وجہ سے لامحالہ ان کی قربت ایران سے ہونی ہی تھی۔ اس طرح لبنان، شام اور یمن جہاں شیعہ آبادی اکثریت ہیں ان کی قربت بھی ایران سے ہے۔ بحرین جہاں ستر فیصد شیعہ آبادی ہے لیکن بادشاہ سنی خاندان ہے۔ اس زمانے میں بادشاہت ۔ جب میں سنتا ہوں کہ کسی ملک میں بادشاہ ہے تو مجھے الٹی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
۲۰۱۱ میں جب مصر میں حسنی مبارک کی حکومت ختم ہوگئی اور
جمہوری الیکشن کے ذریعہ جب محمد مرسی برسراقتدار آئے تو خلیج کے ان عرب ممالک کو پھر تشویش ہوئی کہ محمد مرسی تو اسلام کا ہیرو ہوجائے گا۔ تب محمد مرسی کی حکومت ایک سازش کے تحت ختم کی گئی۔ بشار الاسد کی حکومت کو ہٹانے کے لئے شام کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا، جس خانہ جنگی کے باعث پورا ملک کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے لیکن یہ عرب ممالک باغیوں کو مسلسل ٹریننگ اوراسلحہ اوروپیہ فراہم کررہے ہیں جس سے شام کی حکومت کو گرادیں ،۔ لیکن شام کے ساتھ ایران ہے ، حزب اللہ ایران کی جنگ لڑرہا ہے۔ اسی طرح لیبیا کے حکمران کرنل قذافی جو ان خلیجی عرب ممالک سے متنفر ہوکر عرب لیگ سے نکل گئے تھے ان کو بھی ان عرب خلیجی ممالک کے حکمراں نے نہیں بخشا ۔لیبیامیں بغاوت کے ذریعہ تختہ پلٹ دیا گیا۔ قذافی کو عبرت کا نشان بنادیا گیا۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ شام ہمارے لئے سرخ لکیر ہے۔ شام کے دمشق میں حضرت زینب کا روضہ ہے۔ جو حضرت حسین (رضی)کی بہن تھیں۔اس مقبرہ پر بار بار حملہ کیا گیا، حضرت سکینہ کا بھی مقبرہ بھی ہے۔ اس طرح بہت سارے اہل بیت کا مقبرہ ہے۔ سید حسن نصراللہ کاکہنا ہے کہ اس عہد میں جن لوگوں نے اہل بیت کو رسوا کیا ہمارے رہتے ہوئے اب اہل بیت کو کوئی بھی رسوا نہیں کرسکتا اس کے لئے چاہے ہم کو تین تہائی اہل شیعہ کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔
اہل شیعہ کے یہاں لیڈر شپ بہت ہی طاقت ور ہے، ان کے یہاں امام کا تصور ہونے کے باعث ان کے اندر اتحاد و اتفاق بہت ہے۔اس وقت دنیا میں دو ہی امام کی چلتی ہے جس کے ایک اشارے پر پوری قوم جان بھی دے سکتی ہے اور لے بھی سکتی ہے۔ ان میں عراق کے آیت اللہ سیستانی اور ایران کے آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای ولایت فقیہ کے منصب پر فائز ہیں۔ اس لئے ان کا درجہ سب سے اوپر ہے۔ ان کا حکم ماننا دنیا کے تمام شیعوں کے لئے لازمی ہیں۔ اس لئے امریکہ اور مغرب اس بات سے مطمئن ہے کہ اگر کسی معاہدے کی آیت اللہ خامنہ ای نے حمایت کردی تو اس معاہدے کو تمام شیعہ دنیا تسلیم کرلے گی۔ لیکن سنی دنیا میں کوئی ایسی قیادت ہی نہیں ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ ایک لیڈر کے حقیقی دس حامی بھی نہیں ملیں گے۔ کہیں اتحاد بھی نظر آتا تو وہ محض مفاد کا اتحاد ہے۔
خلیج کے یہ عرب ممالک کی دلی خواہش ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اور پورا یورپ مل کر ایران کو تباہ کردے تاکہ ہم مزے سے حکومت کرتے رہیں ۔ لیکن تاریخ پر جو ظالموں کا قرض چڑھ چکا ہے اس کو بھی تو چکتا ہونا ہے۔جب کسی کی عقل تباہ ہوجاتی ہے تو وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ وہ اسلام کے دشمنوں سے ہاتھ بے شرمی کی حد تک ملانے کو تیار ہیں۔ ان عرب ممالک کو صرف اپنی فکر ہے ۔ اسلام بھاڑ میں جائے ان کو کوئی فکر نہیں ہے۔حالانکہ شرعی اعتبار سے کسی بھی مسلم ملک کے خلاف غیر مسلم حکومت سے فوجی مدد حاصل کرنا شرعا حرام ہے۔ یہ عرب ممالک بار بار حرام فعل کے ارتکاب کررہے ہیں اور ان کے حامی ساری دنیا میں ان کے ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔
فون:9958361526

No comments:

Post a Comment