Monday, 22 August 2016

دو سو برس چين کا ہے

دو سو برس چين کا ہے

#200_Years_of_china

از:ظفر اقبال

علامہ اقبال نے اپنى کتاب “بال جبريل” کى ايک طويل نظم ساقى نامہ ميں چين کے تعلق سے پيشين گوئى کى تھى کہ
زمانے کے انداز بدلے گئے
نيا راگ ہے، ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حيرت ميں ہے شيشہ باز فرنگ
پرانى سياست گرى خوار ہے
زمين ميروسلطان سے بيزار ہے
گيار دور سرمايہ دارى گيا
تماشا دکھا کر مدارى گيا
گراں خواب چينى سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
علامہ اقبال نے چين کے تعلق سے ايک سو سال پہلے ہى پيشين گوئى کردى تھى ايک زمانہ ايسا آئے گا ،جو ميرى نگاہيں ديکھ رہى ہيں کہ چين ايک عالمى طاقت بن کر اس دنيا پر چھاجائے گا۔
چين آج دنيا کى ايک بڑى معيشت کے ساتھ ساتھ دنيا کى ايک طاقت ور عسکرى قوت کے ساتھ منظرعام پر آچکا ہے۔ وہ تيزى کے ساتھ اس سمت ميں جارہا ہےجہاں سارى دنيا کے بيشتر معيشتوں اور ممالک پر اس کا کنٹرول ہوجائے گا جس طرح امريکہ اور يوروپ کا گذشتہ چند برسوں پہلے تک تھا۔ امريکہ اور يورپ کا طلسم اب ٹوٹ رہا ہے۔ اب امريکہ اور يوروپ چين کے قريب جانے اور اپنى عزت بچانے کى کوششو ںميں ہيں، تاکہ چين کى بے نظير طاقتوں ميں اپنى جگہ حاصل کرسکے۔ اسى پيش نظر امريکى صدر بارک ابامہ  نے دو سال قبل چين کے اپنے دورہ ميں امريکى صدر کى جانب سے ايک بڑا اعلان کيا تھا جو اس کى شکست کا مظہر ہے وہ اعلان تھا کہ’’ اب امريکہ تبت کو چين کا حصہ تسليم کرتا ہے۔‘‘ اب آئندہ دوسو برسوں تک چين کا ہى اس دنيا کے ايک بڑے علاقے پر راج چلے گا اور اسى کى برترى تسليم کى جائے گى۔اس حالت ميں برصغير کے دو اہم ممالک جن کى سرحديں چين سے ملتى ہيں ہندوستان اور پاکستان کيا کريں۔
سب سے پہلے ہم پاکستان کو ليتے ہيں کہ شايد ابتداء ہى ميں پاکستان کے حکمرانوں اور بصيرت رکھنے والى قيادت نے چين کے تعلق سے دورانديشى کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند شاندار فيصلے کئے ہيں۔ جب 1949 ميں ماؤزے تنگ کى قيادت ميں چين ميں انقلاب آيا تو پاکستان دنيا کا پہلا ملک کا تھا جس نے چين کى اس نئى حکومت کو تسليم کيا۔
پاکستان کى پى آئى اے دنيا کى پہلى ائر لائنز تھى، جو بيجنگ ائرپورٹ پر اترى جس سے چين کى عالمى تنہائى دور ہوئى۔ پاکستان نے ہى 1972 ميں امريکہ اور چين کى دوستى کرائى تھى جب پہلى مرتبہ امريکى خارجہ سکريٹرى ہنرى کسنجر پى آئى اے کے جہاز پر بيٹھ کر ماؤزے تنگ سے ملنے بيجنگ گئے تھے۔ يہ وہ بنيادى اقدامات تھے جس وقت چين کواس کى سخت ضرورت تھى اس نازک موقع پر پاکستان نے اس کا ساتھ ديا تھا۔ اس لئے پاکستان اور چين کے تعلقات نہايت ہى گہرے ہيں۔ پاکستان کو اس سلسلے ميں فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہميں خدشہ ہےکہ کچھ اسلامى پارٹیاں چين کے سنکيانگ صوبہ يعنى کاشغر کے مسئلے کو لے کر ايک نيامحاذ جنگ تلاش نہ کرليں ۔ اگر ايسا ہوتا ہے تو عالم اسلام کى سارى کوششيں رائيگاں چلى جائيں گى اور عالم اسلام آئندہ دو سو برسوں تک ايک نئى جنگ ميں پھنس جائےگا۔ کاشغر کے تعلق سے عالم اسلام چين کے ساتھ مذاکرات کرکے بيچ کا راستہ نکال سکتا ہے، تاکہ دونوں پرامن رہيں۔
اب ہم ہندوستان کى طرف آتے ہيں ۔ ہندوستان کو اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ چين اب اس حالت ميں ہے کہ وہ اب اس دنيا کى قیادت کرسکے اور بہت جلد ہى وہ امريکہ کو Replace کرکے قيادت کے مقام پر فائز ہوجائےگا۔ ايسے موقع پر ہندوستان کو دورانديشى کا مظاہرہ کرتے ہوئے چين سے دوستى استوار کرنى چاہئے۔ جس طرح امريکہ نے اپنے مفادات کا خيال رکھتے ہوئے تبت کو چين کا حصہ تسليم کرليا تھا ۔ اسى طرح ہندوستان کى عوام کے مفادات کو ذہن ميں رکھتے ہوئے ہندوستان کوبھى امريکى نقش قدم پر چلتے ہوئے تبت کو چين کا حصہ تسليم کرلينا چاہئے۔ تب ہى دونوں پڑوسيوں ميں باہمى اعتماد کى فضا پيدا ہوسکتى ہے، نہيں تويہ سرد جنگ ايک خوفناک تصادم ميں تبديل ہوجائے گا جس ميں ہندوستان کو بڑى قيمت چکانى پڑسکتى ہے۔ يقيناً اب جنگ کى نوعيت 1962 جيسى نہيں ہوگى بلکہ جنگ کا دائرہ وسيع ہوکر پورے ملک ميں پھيل سکتا ہے۔
فون :9958361526-91

No comments:

Post a Comment