Tuesday, 23 August 2016

بے غیرت عرب حکمران

بے غیرت عرب حکمران 

#unpopuler_arab_ruler_Palestine_alquds

عربوں میں پہلا عرب حکمران عبدالملک بن مروان تھا جنہوں نے اپنی حکومت کے استحکام اور اپنے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مقصد سے اپنے گورنر حجاج بن یوسف کو استعمال کرتے ہوئے عبداللہ بن زبیر (رض) کے خلاف لڑائی کی ، جس لڑائی کے دوران ان عرب حکمراں نے مکہ میں کعبہ پر منجنیق سے پتھربازی کرکے بیت اللہ کو مکمل طور سے ڈھادیا۔ اس کا اہم مقصد محض اپنی حکومت کو بچانا تھا۔
دوسرا واقعہ 1099ء کا ہے، اس وقت عباسی خلیفہ کے عہد میں بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ہوگیا،وہ قبضہ تقریبا 90 برسوں تک صلیبیوں کا رہا، تب کرد سلطان صلاح الدین ایوبی (رح) کے ہاتھوں بیت المقدس پھر مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔
ہلاکو کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد خلافت تقریبا ختم ہوگئی تھی، جس نے خلافت کو دوبارہ استحکام بخشا ہے وہ ملک الظاہر سلطان بیبرس تھا جو ایک مملوک حکمراں تھا جس نے عباسی خاندان کے ایک زندہ بچ جانے والے بچے کو خلیفہ بنایا ، پھر بعد میں جب عثمانی ترکوں کو عروج حاصل ہوا۔ تب خلافت عثمانی ترکوں کو مل گئی۔ لیکن انہوں نے کعبۃ اللہ کی جس طرح نگرانی کی اور اس کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیا گیا۔ لیکن 1917 میں ایک سازش کے تحت آل سعود نے یہودیوں کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا اور فلسطین اور بعد میں 1967 میں بیت المقدس پر اسرائیل قبضہ کروایا۔ اس کا اہم مقصد جو انہوں نے عثمانی ترکوں کے پیٹھ میں خنجر گھونپ کر جو سلطنت حاصل کی اس کو استحکام مل جائے اور اسرائیل اور امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہے۔
ان عرب حکمرانوں نے اپنے حکمرانی کے استحکام کے لئے جس طرح اسلامی مقدسات کو پامال کیا اس کی کوئی نذیر ہمیں تاریخٰ میں نہیں ملتی ہے۔ ایک بار پھر آل سعود حرمین کی آڑ میں اپنے سیاہ جرائم کو چھپانے میں لگی ہوئی ہے اور حرمین کی حفاظت کے نام پر یمن میں قتل وغارت گری میں لگی ہوئی ہے، یمن کے غریب عوام پر امریکی، فرانسیسی اور اسرائیل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔اس لئے حرمین کا منیجمنٹ آل سعود سے چھین لینا چاہئے اور سعودی عرب میں الیکشن کرانا چاہئے اور حرمین کا منیجمنٹ او آئی سی سنبھالے،تاکہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نمائندگی صحیح معنوں میں ہوسکے۔ لوگ اپنے اپنے مسلک کے تحت وہاں عبادت کرسکیں۔
اس سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ انہوں نے تاریخ میں کیا کیا جرائم کئے ہیں۔ اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے صاف کہا کہ عربی وعجی میں کوئی فرق نہیں ، اگر کوئی ایک دوسرے پر فضیلت رکھتا ہے تو وہ تقوی کی بنیا پر رکھتا ہے۔ اس لئے عرب کو زیادہ فضیلت دینے کی ضرورت نہیں ہے، سب انسان برابر ہیں۔



No comments:

Post a Comment