طالبان کا وجود :ایک ناسور
#Taliban_islam_cancer
از:ظفر اقبال
جب روس نے 1979ء میں افغانستان پر حملہ کرکے قبضہ کیا تھا اس وقت پاکستان
کے صدر جنرل ضیاء الحق تھے۔ انہوں نے اس سنگین صورت حال کو پوری طرح محسوس
کرتے ہوئے اس جنگ میں کودنے کا ارادہ کیا ، اس وقت پاکستان کیا امریکہ بھی
روس کے ساتھ براہ راست جنگ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔پاکستان کا
افغانستان کی جنگ میں الجھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن جنرل ضیاء الحق
کو اس بات کا احساس ہوگیاکہ روس کی خواہش دراصل پاکستان کے راستہ بحیرہ عرب
تک پہنچنے کی ہے اور بحیرہ عرب تک پہنچنے کے بعد خلیج کے دیگر ممالک کو
بھی وہ اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر سعودی عرب اور متحدہ
عرب امارات ابتداء سے ہی اس جنگ کا بالواسطہ حصہ بنے رہے۔ تب یہ چیز یں ان
ممالک کی مجبوری ہوگئیں کہ اگر روس کو افغانستان میں شکست نہ دی گئی تو
پاکستان اور خلیج کے دیگر ممالک روس کی جارحیت سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔
یہ صورت حال پاکستان اور خلیج کے دیگر ریاستوں کی مجبوری بن گئی۔روس کی
تاریخ ماضی میں جارحیت کی رہی ہے۔ وسط ایشیا کے مسلم ممالک کا سوویت روس
میں مکمل انضمام اس کا واضح ثبوت ہے۔1990 میں روس کے انتشار کے بعد بہت
سارے ممالک کے ساتھ وہ مسلم ممالک بھی آزاد ہوگئے ہیں۔
افغانوں نے وہی پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کیا جو وہ ماضی میں برطانیہ کے خلاف استعمال کرچکے تھے، وہ نسخہ گوریلا طرز جنگ تھا۔امریکہ بھی اس جنگ میں کود گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اپنے ایک عالمی حریف سوویت روس کو ہر حال میں شکست سے دوچارکرنے کا خواہش مند تھا۔اس کے لئے یہ ایک اچھا موقع ثابت ہوا۔امریکہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے راستے بے پناہ اسلحہ اور اپنے خزانے افغانوں کے لئے کھول دےئے۔
طالبان دراصل افغانستان اور پاکستان کے مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو ابتدامیں سوویت روس سے برسرپیکار تھے۔طالبان کے علاوہ بھی بہت ساری تنظیمیں جیسے گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، برہان الدین ربانی کی تنظیم اور اسی طرح احمد شاہ مسعود کی تنظیم اورچھوٹی بڑی درجنوں تنظیمیں انفرادی طور پر ابتداء سے ہی روس سے برسرپیکار رہیں، پاکستان امریکہ کی مدد سے ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کو عسکری ٹریننگ دیتا رہا۔
جب روس کو افغانستان میں پاکستان اور امریکہ کی مدد سے شکست ہوگئی تو امریکہ افغانستان کوبے یارومددگار چھوڑ کر چلاگیا۔روسی حکومت کے خاتمے کے بعدتمام تنظمیں حکومت سازی کے لئے برسرپیکار ہوگئیں اور وہ آپس میں لڑنے لگیں، خیر کافی لڑائیوں کے بعد جب ان تنظیموں کاآپس میں معاہدہ ہوگیا جس کے بعد حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار افغانستان کے وزیراعظم بن گئے اور پروفیسر برہان الدین ربانی صدر بنائے گئے۔ اسکے بعد بھی وہ آپس میں برسرپیکار ہی رہے۔ ان تنظیموں کی خانہ جنگی نے پاکستان کو نالاں کردیا، اس طرح پاکستان کی مدد سے طالبان کی 1995میں حکومت قائم ہوگئی۔ طالبان کی یہ حکومت 2001ء تک رہی جس کو امریکہ نے حملے کرکے خاتمہ کردیا۔طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والوں میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے۔
1979میں روسی حملے کے بعد ساری دنیا کے مجاہدین افغانستان میں جہاد کے لئے آتے رہے ، ان لوگوں میں اسامہ بن لادن بھی تھا۔ ابتدا سے ہی طالبان کے تعلقات اسامہ بن لادن سے تھے۔ اسامہ نے اپنی دولت کے بل پر ان افغانوں جو اپنے محسنوں کی روایتی مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں ان کو اپنا ہمنوا بنالیا جب طالبان کی 1995میں حکومت قائم ہوگئی تو اس نے ایک انتہا پسند حکومت قائم کی جس کا تعلق شریعت سے بالکل نہیں تھا، اسلام جوعدل و رواداری کا مذہب ہے۔اس کی جگہ انتہا پسندی نے لے لی۔ اس نے بین الاقوامی تعلقات اور مذہبی رواداری کی جو دھجیاں اڑائیں اس سے ساری دنیا کے انسانیت نواز لوگوں کو پریشان کردیا جس کی بدترین گناہوں کا کفارہ آج مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان ادا کررہے ہیں۔
میں ایک مثال کے ذریعے طالبان کے ایک بدترین گناہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے اس امت مسلمہ کو تکلیفوں میں مبتلا کردیا ہے جس سے امت مسلمہ کراہ رہی ہے وہ اس لئے کے طالبان کے اس بدترین گناہ کو ساری دنیا کے دیگر مذاہب کے لوگ اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، کیوں نہ دیکھیں ؟ ان کو دیکھنے کا اس کا پورا حق ہے ۔وہ اس لئے کے امت مسلمہ کی عالمی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس اور دیگر ممالک میں بسنے والے مسلم علماء کی مجرمانہ خاموشی نے اس چیز کو محسوس کرایا ہے۔ وہ انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ طالبان کے مجلس شوری اور نام ونہاد امیرالمومنین ملا عمر کے حکم سے بامیان میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کی امین گوتم بدھ کے دو مجسموں جوپہاڑ کو کاٹ کر بنائے گئے تھے کہ توپ کے ذریعے اڑادیا گیا۔ ساری دنیا کے مسلمان اس بدترین واقعہ کو دیکھتے رہے اوراس کی کھل کر مذمت بھی نہ کی۔ اس چیز نے بدھ مذہب کے پیروکاروں کو اس بات کے لئے مجبور کیا کہ مسلمان بنیادی طور پر انتہا پسند ہیں ان کو جب بھی طاقت ملتی ہے تو دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرتے ہیں اور ذلیل کرتے ہیں۔ ان میں قوت برداشت کی کمی ہے۔طالبان کی انہیں کرتوتوں کی قیمت یہ امت مسلمہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کی صورت میں دیکھ رہی ہے اسی طرح سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف سری لنکائی بودھوں کے حملے ہورہے ہیں۔ بلکہ چند مہینے پہلے سری لنکا میں حلال کھانے کے خلاف ان بودھوں نے مظاہرہ بھی کیا تھا اور سری لنکائی مسلمان کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ ان تمام واقعات کا تعلق طالبان کے ان بدترین گناہوں سے ہے۔ اس لئے امت مسلمہ کے حکمرانوں اور علماء کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بدھ مذہب کے پیروکاروں سے طالبان کے ان کرتووں کی معافی مانگیں اور طالبان پر مقدمہ چلا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
چھ سات مہینے پہلے کی بات ہے سعودی عرب میں ایک سری لنکائی گھریلو ملازمہ جب وہ چار مہینے کے سعودی بچہ کو غسل دے رہی تھی تو بچہ اس کے ہاتھ سے پھسل گیا جس سے اس کی موت ہوگئی، اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی، حالانکہ حادثاتی موت پر سزائے موت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ سعودی بچہ تھا اس لئے سزائے موت سنائی گئی، یہ مسئلہ جب سری لنکائی صدر مہندر راج پکشے تک پہنچاتو انہو ں نے سعودی حکومت سے درخواست کی کہ اس کی سزاکو عمر قید میں تبدیل کردے لیکن سعودی عرب نے اپنے تکبر میں فاتح جافنا کی درخواست کو مسترد کردیا اور اس سولہ سالہ ملازمہ کا سرقلم کردیا گیا ، اتفاق کی بات ہے کہ اس ملازمہ کا تعلق مذہب اسلام سے تھا، اس کے بعد سری لنکائی پارلیمنٹ نے ملازمہ کے سرقلم کردےئے جانے کے بعد قراردادمذمت پاس کی۔ سعودی عرب کے حکمراں جو تکبر و نخوت میں مبتلا ہیں اپنے علاوہ سارے ایشیائی کو بدتر سمجھتے ہیں ۔ امت مسلمہ جس کے اندر عفو و درگذر کا مادہ زیادہ ہونا چاہئے اس نے اپنے فیصلے سے ثابت کردیا کہ جس کا تعلق انسانیت سے دور کا بھی نہیں ہے، جو اپنے ہم مذہب کے ساتھ بھی نرمی نہیں برت سکتا وہ دوسروں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہوگا۔اس نے ایک بودھ ملک اور اس کے سربراہ کو اسلام سے زیادہ متنفر کردیا اس لئے سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف زیادہ تفریق کا مظاہرہ ہورہا ہے کہ ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانو ں کے اندر انسانیت اور درگذر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔
حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ امن بات چیت کررہی ہے اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک جعلی اسلام کے حامی ہیں جس کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ ہر حال میں اپنے نظریے کو اسلام کی آڑ میں تھوپنا چاہتے ہیں۔ ان تمام عناصر کا جب تک مکمل صفایا نہیں ہوگا اس امت مسلمہ کا بھلا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف جو طالبان کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں وہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے سخت خلاف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح طالبان سے معاہدہ امن ہوجائے لیکن طالبان پاکستان کی آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور جمہوریت پر ان کا یقین ہی نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے طالبان نے مغوی ایف سی کے 23 اہلکاروں کا سر قلم کردیا ہے۔ جس سے یہ بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی ہے۔لیکن حالیہ دنوں پاکستانی فضائیہ طالبان کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کررہی ہے۔
جب تک پاکستان کے عوام اور حکومت کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ طالبان کا وجود مسلمانوں بلکہ ساری انسانیت کے لئے ایک لعنت ہے تب تک بہت دیر ہوجائے گی پاکستان میں اب تک ان دس سالوں میں طالبان کے ہاتھوں ساڑھے چار ہزار پاکستانی فوجی ہلاک اور بارہ ہزار فوجی زخمی ہوچکے ہیں اور پچاس ہزار پاکستانی عوام ان کے خودکش حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی حکومت اور عوام صدق دلی کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچ کر طالبان کے وجودکا ایل ٹی ٹی ای کی طرح خاتمہ کردینا چاہئے، تب ہی اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بہتر ہوسکے گی نہیں تو ان کے کرتوتوں کے خمیازے کو اس امت مسلمہ کو صدیوں تک بھگتنا پڑے گا۔
افغانوں نے وہی پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کیا جو وہ ماضی میں برطانیہ کے خلاف استعمال کرچکے تھے، وہ نسخہ گوریلا طرز جنگ تھا۔امریکہ بھی اس جنگ میں کود گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اپنے ایک عالمی حریف سوویت روس کو ہر حال میں شکست سے دوچارکرنے کا خواہش مند تھا۔اس کے لئے یہ ایک اچھا موقع ثابت ہوا۔امریکہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے راستے بے پناہ اسلحہ اور اپنے خزانے افغانوں کے لئے کھول دےئے۔
طالبان دراصل افغانستان اور پاکستان کے مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو ابتدامیں سوویت روس سے برسرپیکار تھے۔طالبان کے علاوہ بھی بہت ساری تنظیمیں جیسے گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، برہان الدین ربانی کی تنظیم اور اسی طرح احمد شاہ مسعود کی تنظیم اورچھوٹی بڑی درجنوں تنظیمیں انفرادی طور پر ابتداء سے ہی روس سے برسرپیکار رہیں، پاکستان امریکہ کی مدد سے ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کو عسکری ٹریننگ دیتا رہا۔
جب روس کو افغانستان میں پاکستان اور امریکہ کی مدد سے شکست ہوگئی تو امریکہ افغانستان کوبے یارومددگار چھوڑ کر چلاگیا۔روسی حکومت کے خاتمے کے بعدتمام تنظمیں حکومت سازی کے لئے برسرپیکار ہوگئیں اور وہ آپس میں لڑنے لگیں، خیر کافی لڑائیوں کے بعد جب ان تنظیموں کاآپس میں معاہدہ ہوگیا جس کے بعد حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار افغانستان کے وزیراعظم بن گئے اور پروفیسر برہان الدین ربانی صدر بنائے گئے۔ اسکے بعد بھی وہ آپس میں برسرپیکار ہی رہے۔ ان تنظیموں کی خانہ جنگی نے پاکستان کو نالاں کردیا، اس طرح پاکستان کی مدد سے طالبان کی 1995میں حکومت قائم ہوگئی۔ طالبان کی یہ حکومت 2001ء تک رہی جس کو امریکہ نے حملے کرکے خاتمہ کردیا۔طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والوں میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے۔
1979میں روسی حملے کے بعد ساری دنیا کے مجاہدین افغانستان میں جہاد کے لئے آتے رہے ، ان لوگوں میں اسامہ بن لادن بھی تھا۔ ابتدا سے ہی طالبان کے تعلقات اسامہ بن لادن سے تھے۔ اسامہ نے اپنی دولت کے بل پر ان افغانوں جو اپنے محسنوں کی روایتی مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں ان کو اپنا ہمنوا بنالیا جب طالبان کی 1995میں حکومت قائم ہوگئی تو اس نے ایک انتہا پسند حکومت قائم کی جس کا تعلق شریعت سے بالکل نہیں تھا، اسلام جوعدل و رواداری کا مذہب ہے۔اس کی جگہ انتہا پسندی نے لے لی۔ اس نے بین الاقوامی تعلقات اور مذہبی رواداری کی جو دھجیاں اڑائیں اس سے ساری دنیا کے انسانیت نواز لوگوں کو پریشان کردیا جس کی بدترین گناہوں کا کفارہ آج مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمان ادا کررہے ہیں۔
میں ایک مثال کے ذریعے طالبان کے ایک بدترین گناہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے اس امت مسلمہ کو تکلیفوں میں مبتلا کردیا ہے جس سے امت مسلمہ کراہ رہی ہے وہ اس لئے کے طالبان کے اس بدترین گناہ کو ساری دنیا کے دیگر مذاہب کے لوگ اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، کیوں نہ دیکھیں ؟ ان کو دیکھنے کا اس کا پورا حق ہے ۔وہ اس لئے کے امت مسلمہ کی عالمی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس اور دیگر ممالک میں بسنے والے مسلم علماء کی مجرمانہ خاموشی نے اس چیز کو محسوس کرایا ہے۔ وہ انسانی تاریخ کا بدترین واقعہ طالبان کے مجلس شوری اور نام ونہاد امیرالمومنین ملا عمر کے حکم سے بامیان میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کی امین گوتم بدھ کے دو مجسموں جوپہاڑ کو کاٹ کر بنائے گئے تھے کہ توپ کے ذریعے اڑادیا گیا۔ ساری دنیا کے مسلمان اس بدترین واقعہ کو دیکھتے رہے اوراس کی کھل کر مذمت بھی نہ کی۔ اس چیز نے بدھ مذہب کے پیروکاروں کو اس بات کے لئے مجبور کیا کہ مسلمان بنیادی طور پر انتہا پسند ہیں ان کو جب بھی طاقت ملتی ہے تو دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرتے ہیں اور ذلیل کرتے ہیں۔ ان میں قوت برداشت کی کمی ہے۔طالبان کی انہیں کرتوتوں کی قیمت یہ امت مسلمہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کی صورت میں دیکھ رہی ہے اسی طرح سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف سری لنکائی بودھوں کے حملے ہورہے ہیں۔ بلکہ چند مہینے پہلے سری لنکا میں حلال کھانے کے خلاف ان بودھوں نے مظاہرہ بھی کیا تھا اور سری لنکائی مسلمان کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ ان تمام واقعات کا تعلق طالبان کے ان بدترین گناہوں سے ہے۔ اس لئے امت مسلمہ کے حکمرانوں اور علماء کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بدھ مذہب کے پیروکاروں سے طالبان کے ان کرتووں کی معافی مانگیں اور طالبان پر مقدمہ چلا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
چھ سات مہینے پہلے کی بات ہے سعودی عرب میں ایک سری لنکائی گھریلو ملازمہ جب وہ چار مہینے کے سعودی بچہ کو غسل دے رہی تھی تو بچہ اس کے ہاتھ سے پھسل گیا جس سے اس کی موت ہوگئی، اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی، حالانکہ حادثاتی موت پر سزائے موت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ سعودی بچہ تھا اس لئے سزائے موت سنائی گئی، یہ مسئلہ جب سری لنکائی صدر مہندر راج پکشے تک پہنچاتو انہو ں نے سعودی حکومت سے درخواست کی کہ اس کی سزاکو عمر قید میں تبدیل کردے لیکن سعودی عرب نے اپنے تکبر میں فاتح جافنا کی درخواست کو مسترد کردیا اور اس سولہ سالہ ملازمہ کا سرقلم کردیا گیا ، اتفاق کی بات ہے کہ اس ملازمہ کا تعلق مذہب اسلام سے تھا، اس کے بعد سری لنکائی پارلیمنٹ نے ملازمہ کے سرقلم کردےئے جانے کے بعد قراردادمذمت پاس کی۔ سعودی عرب کے حکمراں جو تکبر و نخوت میں مبتلا ہیں اپنے علاوہ سارے ایشیائی کو بدتر سمجھتے ہیں ۔ امت مسلمہ جس کے اندر عفو و درگذر کا مادہ زیادہ ہونا چاہئے اس نے اپنے فیصلے سے ثابت کردیا کہ جس کا تعلق انسانیت سے دور کا بھی نہیں ہے، جو اپنے ہم مذہب کے ساتھ بھی نرمی نہیں برت سکتا وہ دوسروں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہوگا۔اس نے ایک بودھ ملک اور اس کے سربراہ کو اسلام سے زیادہ متنفر کردیا اس لئے سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف زیادہ تفریق کا مظاہرہ ہورہا ہے کہ ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانو ں کے اندر انسانیت اور درگذر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔
حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ امن بات چیت کررہی ہے اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک جعلی اسلام کے حامی ہیں جس کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ ہر حال میں اپنے نظریے کو اسلام کی آڑ میں تھوپنا چاہتے ہیں۔ ان تمام عناصر کا جب تک مکمل صفایا نہیں ہوگا اس امت مسلمہ کا بھلا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف جو طالبان کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں وہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے سخت خلاف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح طالبان سے معاہدہ امن ہوجائے لیکن طالبان پاکستان کی آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور جمہوریت پر ان کا یقین ہی نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے طالبان نے مغوی ایف سی کے 23 اہلکاروں کا سر قلم کردیا ہے۔ جس سے یہ بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی ہے۔لیکن حالیہ دنوں پاکستانی فضائیہ طالبان کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کررہی ہے۔
جب تک پاکستان کے عوام اور حکومت کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ طالبان کا وجود مسلمانوں بلکہ ساری انسانیت کے لئے ایک لعنت ہے تب تک بہت دیر ہوجائے گی پاکستان میں اب تک ان دس سالوں میں طالبان کے ہاتھوں ساڑھے چار ہزار پاکستانی فوجی ہلاک اور بارہ ہزار فوجی زخمی ہوچکے ہیں اور پچاس ہزار پاکستانی عوام ان کے خودکش حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی حکومت اور عوام صدق دلی کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچ کر طالبان کے وجودکا ایل ٹی ٹی ای کی طرح خاتمہ کردینا چاہئے، تب ہی اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بہتر ہوسکے گی نہیں تو ان کے کرتوتوں کے خمیازے کو اس امت مسلمہ کو صدیوں تک بھگتنا پڑے گا۔
فون:9958361526
No comments:
Post a Comment