Sunday, 14 August 2016

علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر:امام خمینی کا اسلامی انقلاب

علامہ اقبال  کے خوابوں کی تعبیر:امام خمینی کا اسلامی انقلاب

Iqbal_Khumaini_Islamic_revolution#

از:ظفر اقبال

حضرت علامہ اقبالؒ حقیقی معنوں میں الشاعر تلمیذ الرحمان کے مصداق تھے۔ وہ نابغہ روزگار، متبحر عالم اور اپنے عہد کے عظیم فلسفی تھے۔ اللہ نے ان کو ایک ایسے وجدان سے نوازا تھا جو ایک حدیث کے مطابق ایک نبی کے بعد کسی عام آدمی کو جو بشرت کے اعلی مقام پر فائز ہو، ودیعت کیا جاتا ہے، جو ایک نبی کے وجدان کا چالیسواں حصہ ہوتا ہے، یہ وجدان اقبال جیسی مستقبل بیں شخصیت کو عطا ہوا تھا۔
فارسی شاعری جس کو غالب بہت پہلے ترک کرچکے تھے لیکن اقبال نے غالب کے برعکس فارسی میں اپنے خیالات کے اظہار کے لئے وسیلہ کیوں بنایا۔یہ خود ایک بڑا سوال ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی برصغیر اور خاص طور سے اردو دنیا سے بالکل مایوس ہوجانا اور اپنے خیالات کے اظہار کے لئے فارسی کو ذریعہ بنانا۔یہ ایک غیر معمولی فیصلہ تھا، جو علامہ اقبال نے کیا۔
اسی وجدان کا نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال ایران میں اس اسلامی انقلاب کے بیج کو بہت پہلے دیکھ چکے تھے اور انہوں نے پوری طرح اس چیز کو محسوس کیا تبھی علامہ اقبال نے ایران کے تعلق سے اپنی غیر معمولی نظم جو ضرب کلیم میں،’’جمعیت اقوام مشرق‘‘ کے عنوان سے ہے اس نظم میں واضح طور پر ایران کے سپرپاور بننے کی پیشین گوئی کی تھی، وہ نظم ملاحظہ ہو
پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہِ فلک پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گرعالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر کے واسطے امام خمینیؒ اللہ کا انتخاب ہے۔اقبال نے مسلم امہ کی امامت کے لئے جو Criteria متعین کیا تھا اس پر امام خمینی پوری طرح صادق آتے ہیں۔ضرب کلیم میں ’’امامت‘‘ کے عنوان سے وہ نظم ملاحظہ ہو۔
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
دے کر احساس زیاں تیرا لہو گرمادے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بیضاء سے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے
امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کو دیکھ کر دنیا محو حیرت ہے۔ اس لئے کہ ماضی میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔اگر ابتداسے ہی حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم جو خود اپنی ذات میں ایک نبی و رسول کے ساتھ ساتھ حکمراں بھی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت علی کرم اللہ رضی اللہ تعالی بلکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ تک اپنی ذات میں ایک زبردست عالم کے ساتھ ساتھ ایک مدبر سیاست داں بھی تھے اس لئے دنیا کا کاروبار حیات صحیح اسلامی نہج پر چلتا رہا لیکن جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی اور دنیا دو طبقوں میں تقسیم ہو گئی ایک جاہ پرست لوگوں کاطبقہ جو حکمرانی کے منصب پر فائز تھااور دوسرا علماء کا گروپ جو مسند ارشاد پر فائز ہوگیا اس تقسیم نے عالم اسلام کوتباہی سے دوچار کردیا۔ اسی تصور کا نتیجہ تھا کہ پوری اسلامی تاریخ خاک و خون میں نہائی ہوئی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے۔اللہ نے حکمرانی کے لئے جو اصول و قواعددنیا والوں کو دےئے تھے وہ طاق نسیان میں رکھ دئیے گئے تھے۔
اسی طرز حکمرانی کی امام خمینی نے احیاء کی جو حضرت علی کی شہادت کے ساتھ کہیں کھوگئی تھی۔ یہ تاریخ میں عدیم المثال واقعہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد پہلی مرتبہ علماء کسی ملک کے حکمراں ہیں۔ یہ وہ نعمت ہمارے لئے ہے کہ ایران اس وقت بام عروج پر پہنچ رہا ہے اور وہ اس لئے کہ خدا کے نزدیک علم جب تقوی سے وابستہ ہو تبھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے نہیں تو ابلیس اسے اپنی راہ سے بھٹکادیتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جن اسماء کا علم دیا گیااہل ایران ان اسماء کا انکشاف کرکے اس دنیا میں حقیقی وارث بننے کے جستجو میں ہیں۔علم کو ابتدائی عہد کے علماء نے دو قسموں میں تقسیم کردیا تھا ایک علم دنیااور دوسرا علم دین لیکن یہ تمام تقسیم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہوئی اس سے پہلے اس طرح کی تقسیم کی کوئی نظیر ہمیں نہیں ملتی ہے۔ اسی تقسیم نے ہمیں علمی اعتبار سے پستی سے دوچار کردیا۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس تقسیم کو مسترد کردیا۔ اس طرح ایران میں امام خمینی کے صحیح اسلامی نظریہ کے تناظر میں ۱۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب آیا۔ اس انقلاب نے عالم اسلام اور ساری دنیا خاص طور سے مغرب کو اس بات کے لئے سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام واقعی ایک سیاسی طاقت کے طور پر دنیا کی رہنمائی کرسکتاہے۔اسی طاقت اور اسی نظریہ کو ناکام کرنے کے لئے مغرب اور منافق طاقتوں نے ایران پر یلغار کردی۔ ایران کا اسلامی انقلاب بالکل ابتدائی مرحلوں میں ہی تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین نے شط العرب کے مسئلے کو بہانہ بناکر ایران پر حملہ کردیا۔ اس حملے کے حامیوں اوردرپردہ حلیفوں میں مغرب کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور خلیجی ممالک تھے۔ ان منافق ممالک عالم اسلام میں یہ پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ شیعہ ملک کے ابھرنے سے سنی دنیا کمزور پڑ جائے گی حالانکہ جھوٹے پروپیگنڈہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ جنگ مسلسل آٹھ برسوں تک چلتی رہی۔لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا ۔ایران اس جنگ میں فاتح اور مستحکم ہوکر برآمد ہوا۔
1989میں امام خمینیؒ کے انتقال کے بعد ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں پورے اسلامی اسپرٹ کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اسلامی انقلاب کی داستان نشیب و فراز سے پر ہے لیکن وہ مسلسل پیش رفت کی طرف گامزن ہے۔ صنعت تجارت و تکنالوجی کے میدان میں وہ غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ اسی انقلاب کی برکت کا نتیجہ ہے ایران مسلسل36برسوں تک بیرونی پابندیاں جھیلنے کے باوجود پنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر جو ترقی کی ہے وہ دنیا کے لئے باعث حیرت بلکہ ایک معمہ بن گیا ہے۔
آج کی دنیامیں کسی ملک کا مفکر اور دانشورطبقہ ہی اس ملک کے ترقی کے اصل اثاثہ جات ہیں۔ جو ملک جتنی جلدی علمی میدان میں اپنے قدم جمالیتا ہے اور مختلف علوم وتکنالوجی میں ترقی کرلیتا ہے اتنی ہی جلدی دنیا میں اپنا ایک نمایاں مقام حاصل کرلیتا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران نے علمی میدان میں اپنے تجربوں کے سہارے غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔
روزنامہ انقلاب، دہلی میں 5فروری 2013کو شائع ایک مضمون میں نگارخانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران نئی دہلی کے کلچرل کونسلر علی فولادی اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ’’آج ایران نے مختلف علوم و فنون بالخصوص میڈیکل سائنس، جوہری توانائی، نینو ٹکنالوجی ،بائیو ٹکنالوجی ،سائنس وغیرہ میں غیر معمولی ترقی حاصل کرلی ہے۔ نینو ٹکنالوجی میں ایران نے خصوصیت سے مہارت حاصل کی ہے۔ نینوٹکنالوجی اکیسویں صدی کے اہم ترین سائنسی انکشافات ہیں۔ آج ایران میں 90ادارے اور 40لیب نینو ٹکنالوجی پر کام کررہے ہیں۔ایرانی محققین ایسے نینو ٹکنالوجی کے مجموعہ کو بنانے میں کامیاب رہے ہیں،جو دوا، کھانے پینے کی اشیاء، کاغذ سازی، آرائش، میڈیکل پروڈکشن میں کام آتے ہیں۔ ساتھ ہی ایران نے نینو میٹرکے ذریعہ ایک ایسا مائکرو اسکوپ تیار کیا ہے جو ڈی این اے (DNA)کے مولیکول، پروٹین اور انٹی باڈی کی فوٹو کھینچ سکتا ہے۔ اس کی تصویر برداری کی صلاحیت دنیا میں امتیازی حیثیت کی مالک ہے۔ اس کو بنانے کے ساتھ ہی ایران ان چنندہ ممالک میں شامل ہوگیا جن کے پاس یہ ٹکنالوجی موجود ہے۔اکیسویں صدی کاپہلاعشرہ ایران کے علمی ارتقائی سفر کا زریں باب ہے۔بین الاقوامی علمی و تحقیقی ادارے (ISI) کے تازہ ترین اعلان کے مطابق ایرانیوں کے ذریعہ پیش کردہ 27ہزار مقالوں کے پیش نظر انہیں پوری دنیا کے تخلیقی اور تحقیقی کارنامے انجام دینے والے ممالک میں تیرہواں مقام حاصل ہے۔‘‘
علی فولادی مزید رقمطراز ہیں :دین واسلام کی رو سے تحقیق و تکنالوجی اس وقت تک روا ہے جب تک اس سے انسانی معاشرہ کو مفید نتائج ملیں، لیکن مغرب کے شدید اقتصادی ناکہ بندی کے باوجود ایران یورونیم افزودگی کے پروجیکٹ میں غیر معمولی ترقی کرلی ہے۔ جوہری توانائی کا تعلق دنیا کے پیچیدہ ترین تکنالوجی میں سے ہے اسے بجلی، کھیتی وغیرہ کے لئے استعمال میں لایاجاسکتا ہے۔ آج ایران اس کو بجلی کے علاوہ طبی سہولیات، زراعتی اور صنعتی میدان میں استعمال کررہا ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ کھیتی یا کھانے پینے کی اشیاء جوخراب ہواچاہتی ہیں وہ ریز کے ذریعہ خراب ہونے سے بچائی جاسکتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جوہری ٹکنالوجی کے ذریعہ کینسر سے لے کر ایڈس جیسے مہلک امراض کے کافی حد تک علاج ڈھونڈ نکالا ہے۔‘‘ دنیا کا یہ مسلمہ اصول ہے دفاعی سائنس میں ترقی کے بغیر محض سولین ترقی سے اپنی اس کامیاب کی حفاظت نہیں کی جاسکتی ۔ اس لئے اسلامی جمہوریہ ایران نے ابتدا ہی سے اپنے دفاعی شعبہ کو خود کفالت کے ذریعہ بہت مضبوط کیا ہے۔ چاہے بری، بحری یا فضائی لڑائی ان تمام لڑائیوں میں انہو ں نے واضح برتری حاصل کرلی ہے۔ ایران کے سائنس دانوں نے دفاعی سیکٹروں میں جو ترقی کی ہے وہ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ چاہے دنیا کے بہترین طیارے، ڈرونز کے مختلف اقسام، دنیا کے جدید ترین میزائلیں، مختصر دوری کے میزائل فتح۔۱۱۰ سے لے کر طویل دوری تک ما ر کرنے والے شہاب، سجیل، رعد میزائلیں ہوں۔ اس طرح چاہئے اسپیس سائنس ہواس میں ایران نے غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔
میزائلیں تو دنیا کے بہت سارے ممالک نے بنائے ہیں لیکن ٹھیک ٹھیک ہدف پر نشانہ لگانے کی جو صلاحیت ایرانی میزائلوں کو حاصل ہے وہ دنیا کے چند ہی ممالک کے پاس ہے۔
اس کے بعد ہم اس سمت میں آتے ہیں کہ مشرق وسطی میں چند برسو ں میں جو تازہ ترین سین ابھرا ہے کیا اس میں ایران کا رول مثبت ہے؟
بہار عرب جس کی ابتدا ء تیونس سے ہوئی جو مصر ہوتے ہوئے لبیا، یمن، بحرین اور شام پہنچی ، ایک کے بعد ایک حکومت عوامی دباؤ کے نتیجے میں سرنگوں ہونے لگیں ۔ اس صورت حال نے مشرق وسطی کے اہم ملک سعودی عرب کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ اس نے ایک خوفناک سازش کے تحت اس بہار عرب کو مسلسل سازشوں کے ذریعہ تباہ وبرباد کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار سے بے دخل کردےئے جانے کے بعد جب صدر محمد مرسی عوامی طور سے منتخب پہلے صدر بنے تو ان کی حکومت کو بے دخل کرنے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مصری فوج کے ذریعہ محمد مرسی کی حکومت کو برطرف کردیا اور ہزاروں اخوانیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں محمد مرسی کوغیر قانونی اور جعلی عدالتی ٹرائل کے بعد پھانسی دےئے جانے کے بھی قوی امکان ہیں۔
لیبا میں کرنل قذافی مارد یا گیا۔ تیونس کا صدر بھاگ کر آل سعود کی میزبانی میں عیش کررہا ،بحرین میں عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے سعودی عرب نے اپنی فوج داخل کردی۔ لیکن شام کا معاملہ مختلف تھا۔اس لئے کہ شام اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اب آل سعود نے اسرائیل اور مغرب کے مفاد کی حفاظت کے لئے شام کی بشار الاسد حکومت جو اسرائیل کے خلاف ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ کی طرح سامنے کھڑا ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لئے اس نے ساری دنیا سے انتہاپسندوں کو شام کی طرف کوچ کرنے اور ان کی مالی اور لاجسٹک سپوٹ کررہا ہے تاکہ وہ بشارالاسد کی حکومت کو اکھاڑ پھینکے اور اس کے پس پردہ یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ شام میں پندرہ فیصد علوی فرقے جن کا تعلق شیعہ سے ہے برسراقتدار ہیں لیکن اسے بحرین یاد نہیں رہا جہاں 70فیصد شیعہ آبادی ہے لیکن حکمراں سنی ہے وہ اس طرح ساری دنیا میں اپنی دولت کے بل پر اس طرح کا پروپیگنڈہ کررہا ہے اور ساری مسلم دنیا میں شیعہ ۔سنی تفرقہ پھیلارہا ہے۔
لیکن سعودی عرب کو اس بات کا احساس نہیں تھاکہ ایران ایک غیر معمولی طاقت بن چکا ہے وہ شام کی آڑ میں ایران پر مغرب کے حملے کی راہ ہموار کررہا تھا تاکہ ایران افغانستان کی طرح برباد ہوجائے اور سعودی عرب عالم اسلام کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتا رہے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کے فوجی جنرلوں نے اپنی حکومتوں کو جو رپورٹ دی وہ حیرت کی بات تھی ان تمام جنرلوں نے ایک ہی بات کہی کہ اگر ایران کے ساتھ یہ جنگ لڑی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ ہمیں نہیں معلوم۔ یہ جنگ کا مسلمہ اصول ہے کہ اگر نتائج کا علم نہ ہو تو جنگ نہ لڑی جائے۔ یعنی وہ تمام جنرل یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ اس جنگ کا کچھ اور نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ہم جنگ ہار بھی سکتے ہیں۔ مغرب کی پسپائی کی یہ ایک اہم وجہ تھی۔ اب جب 16 جنوری 2016 کو مغرب اور ایران کے درمیان پرامن جوہری معاہدہ ہوچکا ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ اب مغرب اور ایران کے درمیان فوجی محاذ آرائی کے امکانات کافی حد تک معدوم ہوچکے ہیں لیکن اسرائیل کے وجود کی وجہ سے اس سے انکار ممکن نہیں۔ اس لئے ایران کسی بھی حالت میں فوجی طاقت میں کوئی کمی کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔ ترقی اور فوجی برتری دونوں ساتھ ساتھ چلتی رہے گی وہ اس لئے کہ طاقت کے ذریعہ ہی آپ امن خرید سکتے ہیں۔
لیکن سعودی عرب ہر حال میں ایران کی تباہی چاہتا ہے اس لئے وہ شام کے مسئلے کو بہت ہی طول دے رہا ہے وہاں صرف دونوں طرف مسلمان ہی مررہے ہیں اسکی اسے ذرا بھی پرواہ نہیں۔ شام میں حالیہ دنوں جنیوا میں بات چیت چل رہی ہے دیکھئے اس بات چیت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
امید ہے کہ امام خمینی کی زیر قیادت جو اسلامی انقلاب اس روئے زمین پر برپا ہوا ہے ۔ ان کے پیروکار جب اس دنیا میں حقیقی وارث ہونے کا حق ادا کریں گے تب انسانیت اپنے کمال کو پہنچ جائے گی اور بشریت کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔**
فون:9958361526
میل آئی ڈی:zafarurduuni@gmail.com

2 comments: